اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہوا،اس تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم کریں گے، آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم عمران خان کا محاسبہ کرے۔ یہ ابھی بھی امپائر کی انگلی کا منتظر ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے امریکی سازش پر بیان تبدیل کیا ہے، کیا اب بھی اسے سازش کہا جائے گا؟ اس پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ کیا عمران خان پہلی بار مکر رہا ہے وہ ہر چیز سے مکر جاتا ہے، گزشتہ چار سال سے کتنی باتیں کیں کسی بات پر عمران خان کھڑا رہا ہے؟ عمران خان کس حالت میں ہوتا ہے اور کیا کہہ جاتا ہے اسے خود یاد نہیں رہتا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کل کہا ہے میرے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، اس آدمی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کہتا کیا ہے، اگر کچھ لوگ اس کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں تو یہ انکا معاملہ ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آرمی چیف تعیناتی کا فیصلہ ہو چکا ہے؟اس پر جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہوا۔
صحافی نے مزید سوال کیا کہ نواز شریف کا آرمی چیف تعیناتی میں کوئی کردار ہے؟ اس پر جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف تعیناتی پر مشورہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے، وزیر اعظم ہی آرمی چیف تعیناتی کا فیصلے کریں گے۔
صحافی نے ایک مرتبہ پھر سوال کیا کہ نواز شریف سے کیا کوئی مشاورت بھی نہیں ہو رہی؟ وزیر دفاع نے کہا کہ ابھی تک آرمی چیف تعیناتی پر مشاورت نہیں ہوئی یہ ہوائی خبریں ہیں۔
قومی اسمبلی میں خطاب
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ عمران خان نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے حقیقی آزادی اور حقیقی جمہوریت کے بیانیے سے ایک اور یو ٹرن لیا ہے ، وقت آگیا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق یہ شخص اپنے اس جھوٹ کی قیمت ادا کرے، اب عمران خان چاہتا ہے کہ ملک کے اندر سے اور ملک سے باہر کوئی اس کے سر پر ہاتھ رکھے تاکہ اس کی سیاسی دکانداری چل سکے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ سات آٹھ ماہ قبل جب اس ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد مخلوط حکومت قائم ہوئی یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ہماری حکومت کو کہا گیا کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے اور ایک سائفر نکال کر کہا گیا کہ اس حکومت کے تانے بانے امریکا سے ملتے ہیں۔ قوم کو بتایا گیا کہ ہم حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ روز عمران خان نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور میں سب پیچھے چھوڑ آیا ہوں عمران خان کی ساری زندگی یوٹرن سے بھری پڑی ہے، انہوں نے جو الزامات لگائے اور اس ایوان اور ملک کی بے توقیری کی۔ وقت آگیا ہے کہ اب آپ کے جھوٹ کو قوم کے ساامنے آنا چاہیے اور اس کی سیاسی قیمت بھی آپ کو ادا کرنی پڑے گی۔
وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ 25 ہزار ڈالر ماہانہ پر بندہ رکھ کر نہ صرف امریکا میں ترلے کئے ہیں بلکہ یہاں بھی ترلے کئے جارہے ہیں۔ چند ووٹوں اور اقتدار کے لئے کسی کو بھی ایسے کاموں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے لوگ ہمارے ملک اور معاشرے کے وجود کے لئے وارننگ ہیں۔ 2014ء میں یہاں جو کچھ ہوا یہ در و دیوار گواہ ہیں اور وہ امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتا رہا۔ وہ چاہتا ہے ملک سے باہر اور ملک کے اندر سے اس کے سر پر کوئی ہاتھ رکھے تاکہ اس کی سیاسی دکانداری چل سکے۔ ملک سے باہر سے ملنے والے تحائف کی جگہ یہاں نکلی گھڑیاںرکھ دی ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت نے گزشتہ سات آٹھ ماہ میں کسی سیاسی جماعت کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ اس کے دور حکومت میں ہم سب قید تھے اور اس نے رشتوں کا بھی پاس نہیں کیا۔ عمران خان کو اقتدار ملنا ایک حادثہ تھا۔ جو بیٹی اور بہن کے رشتہ کا احترام نہ کر سکے اور اپنی والدہ کے نام پر بنائے ہوئے ہسپتال کے پیسے کھا جائے، اب یہ کہتا ہے کہ بھول جائو سائفر کو اور حقیقی جمہوریت کو، لوگ جی ٹی روڈ پر رل رہے ہیں اور یہ خود کہیں اور بیٹھا ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سب گئے ہیں صرف عمران خان نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے اپنی کابینہ سے سربمہر لفافہ ایجنڈا آئٹم کے طور پر منظور کرایا اور اس کے عوض سوہاوہ میں زمین لے کر ٹرسٹ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کے یو ٹرن کا لاکھوں لوگوں پر اب بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہم نے عالمی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی ملک پر الزام نہیں لگایا اس نے جاکر وہاں الزامات لگائے۔ پنجاب میں پرویز الہی کی حکومت ہے پھر بھی وہاں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ آج تک کسی ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، جو ملزم پکڑا گیا ہے وہ لاہور میں اپنے خاندان سمیت پنجاب حکومت کا مہمان ہے اسے کوئی نہیں مل سکا۔ کتنی گولیاں لگی ہیں یہ بھی بات سامنے نہیں آئی، ہم نے اس واقعہ کی پہلے بھی مذمت کی تھی آج بھی کرتے ہیں۔ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، ہم سب کو اس کا احساس ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جو شخص وزیراعظم رہا ہو اسے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔ توشہ خانہ کے تحائف جن ممالک سے آئے وہ لوگ کیا سوچتے ہونگے۔ اب بھی یہ لوگوں سے پیسے پکڑ رہا ہے یہ اتنی دولت کا کیا کرے گا۔ اگر حقیقی آزادی، امپورٹڈ حکومت اور سازش کا بیانیہ دفن کردیا ہے اور اس ایوان سے متعلق جو زبان استعمال کی گئی، عدلیہ نے آئین کو بچایا ورنہ آئین تو پامال ہوگیا تھا۔ یہ سارا کچھ کرکے اب کہا ہے کہ ” آل از اوور” آئین اور قانون کے مطابق اس شخص کو اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔