نیویارک: (ویب ڈیسک) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عالمی امن اور مسائل کا حل سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔
سلامتی کونسل کے زیراہتمام بین الاقوامی پائیدار امن اور سکیورٹی کے عنوان سےمباحثہ میں اظہارخیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آج دنیا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، عالمی سطح پر قیام امن کے ساتھ سماجی اور معاشی ترقی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کوپ 27 میں لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام بڑی پیشرفت ہے، بین الاقوامی سطح پر انصاف کے لیے اقوام متحدہ پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، عالمی امن اور متعلقہ مسائل کا حل سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے، کرونا ہو یا انسانی حقوق کا معاملہ، دہشت گردی ہو یا موسمیاتی تباہیاں ہر شعبے میں اقوام متحدہ کا کردار بڑھ گیا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کسی بھی تنازع کے فریق ملک دوطرفہ معاملہ کہہ کر توجہ نہیں ہٹا سکتے، سلامتی کونسل تسلیم شدہ تنازعات کے حل میں موثر کردار ادا کرے، دیرینہ تنازعات کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے
وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ کشمیر پرسلامتی کونسل کی قراردادیں عملدرآمد کی منتظر ہیں، مزید ملکوں کو ویٹو پاور دینے سے عالمی سطح پر خلیج بڑھے گی، قراردادوں پرعملدرآمد نہ کرنے والے ملک مستقل رکن کیسے بن سکتے ہیں؟
بلاول بھٹو کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ آمنہ جے محمد سے ملاقات
اس سے قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ جے محمد سے ملاقات کی، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔
پاکستان اور بھارت کے نوجوان امن کے لئے تیار ہیں، بلاول بھٹو
قبل ازیں وزیر خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عالمی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے نوجوان امن کے لئے تیار ہیں اور وہ ایک پرامن خوشحال پڑوس دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں تقسیم کی نہیں بلکہ اتحاد کی سیاست پر یقین ہے، ہمیں پاکستان کی جمہوریت پر اعتماد ہے اور اس پر کاربند رہیں گے، ہمارے لیے جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی بہت اہم ہے، وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم تمام اتحادیوں کے تعاون سے ملک کو مشکل معاشی دور سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری اپوزیشن فوج کے سیاست سے پیچھے ہٹنے کی مہم نہیں چلا رہی بلکہ اس بات پر احتجاج کر رہی ہے کہ فوج نے غیر آئینی مداخلت نہیں کی اور عدم اعتماد کا ووٹ لانے سے نہیں روکا۔ میرے خیال میں یہ مضحکہ خیز ہے، یہ ان تمام لوگوں کے لئے باعث تشویش ہے جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اگر عمران خان سیاست دان بننا چاہتے ہیں تو جمہوریت پسند کا کردار ادا کریں۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ یہ عمران خان کی ڈیل تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا عدم اعتماد کا ووٹ ہارنے والے ہیں تو اس سے پیچھے ہٹ گئے اور ایسے اقدامات کیے جس نے ہماری تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے پہلے چھ ماہ کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی اقتصادی ٹیم نے ملک کو درپیش صورتحال کے پیش نظر مشکل معاشی فیصلے کئے کیونکہ ہم نے سنجیدہ معاشی اصلاحات کا عزم کیا ہے، ہم پاکستانی عوام کے لیے نتیجہ خیز کام کرنا چاہتے ہیں، پاکستان میں سیلاب کی تباہی کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا، اس سے33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا جو کہ ہماری جی ڈی پی کا 10 فیصد ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس وقت ہم ایک مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق خاص طور پر مسلم اقلیت کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے صورتحال اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر تشویش کا باعث ہونا چاہیے، بھارت میں ہندو بالادستی کے نظریہ کو پروان چڑھایا گیا ہے جبکہ وہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں اور حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف بھی نفرت پر مبنی رویوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے خیال میں ہندوستان اور پاکستان کی نوجوان نسل امن کے لیے تیار ہے اور وہ ایک پرامن خوشحال پڑوس دیکھنا چاہتے ہیں، مجھے نوجوان نسل پر بھروسہ ہے اور ہم اکیسویں صدی کے جمہوریت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم تقسیم کی سیاست کو اتحاد کی سیاست سے شکست دیں گے، نفرت کی سیاست کو امید کی سیاست سے شکست دیں گے، جھوٹ کی سیاست کو سچ کی سیاست سے شکست دیں گے، ہمارا مستقبل نئی نسل کے ہاتھ میں ہے، ہم کل کے لیے امید کرتے ہیں جو آج سے بہتر ہو گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں تقسیم کی نہیں بلکہ اتحاد کی سیاست پر یقین ہے، ہم نفرت اور تفریق کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، مجھے پاکستان کی جمہوریت پر اعتماد ہے اور اس پر کاربند رہیں گے۔