لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) عام انتخابات کیلئے فی ووٹ لاگت 146 فیصد اضافے کے ساتھ 200 روپے سے بڑھ کر 492 روپے پر پہنچ چکی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق سال 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 19 لاکھ 13 ہزار 850 تھی جبکہ انتخابات پر 1 ارب 45 کروڑ 39 لاکھ 39 ہزار 773 روپے اخراجات آئے، یوں عام انتخابات پر فی ووٹ 20 روپے خرچ ہوئے، 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 8 کروڑ 7 لاکھ 96 ہزار 382 پر پہنچ گئی جبکہ اس سال انتخابات کی مد میں الیکشن کمیشن کے اخراجات 15 فیصد اضافے کے ساتھ 1 ارب 84 کروڑ 97 لاکھ 16 ہزار 560 روپے رہے، یوں 2008ء میں فی ووٹ لاگت 23 روپے رہی۔
2013ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 8 کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 828 ہو گئی، جبکہ اخراجات 156 فیصد اضافے کے ساتھ 4 ارب 73 کروڑ 9 لاکھ 47 ہزار 802 روپے پر پہنچ گئے، 2013ء میں الیکشن کمیشن کی جانب سے فی ووٹ 55 روپے خرچ کیے گئے، سال 2018ء کے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 51 لاکھ 68 ہزار 98 ریکارڈ کی گئی، جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خرچ ہونے والی رقم 344 فیصد اضافے کے ساتھ 21 ارب روپے پر پہنچ گئی، یوں 2018ء میں فی ووٹ 200 روپے خرچ ہوئے۔
اس وقت سپریم کورٹ میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے جبکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق سمیت دیگر کے نمائندے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا اپنا موقف پیش کر چکے ہیں، گزشتہ سال الیکشن کمیشن کی جانب سے 2023ء میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کیلئے اخراجات کا تخمینہ 47 ارب 41 کروڑ 70 لاکھ روپے لگایا تھا جس کے مطابق فی ووٹ 378 روپے خرچ ہونے تھے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے اخراجات کے تخمینہ میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آئندہ عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات پر 61 ارب 80 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوں گے جو 2018ء کے عام انتخابات کی نسبت 146 فیصد زیادہ ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ 2002ء سے 2008ء کے عام انتخابات کے دوران ملک میں افراطِ زر کی اوسط شرح 7.8 فیصد رہی جبکہ 2008ء سے 2013ء کے عام انتخابات کے دوران ملک میں افراط زر کی اوسط شرح 13.4 فیصد رہی تاہم 2013ء سے 2018ء کے عام انتخابات کے دوران ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح کم ہو کر 4.9 فیصد پر پہنچ گئی۔
2018ء میں ہونے والے عام انتخابات سے لے کر اب تک ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح 12.5 فیصد پر پہنچ چکی ہے، اس وقت ملکی معیشت اس نہج پر ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی 1.2 ارب ڈالر قرض کی قسط نومبر 2022ء سے تاخیر کا شکار ہے، پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت کے ایک سالہ دور میں ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح 24 فیصد رہی، گزشتہ ماہ مارچ میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ 35 فیصد رہی جو کہ دسمبر 1973ء کے بعد سے ریکارڈ ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی شرح ہے۔