لاہور: (فہیم حیدر) اقوام متحدہ کی جانب سے 3 مئی کو ہر سال آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد صحافت کے بنیادی اصولوں کی موجودہ صورتحال پر اعتماد کا اظہار کرنا اور دنیا میں صحافت کی موجودہ صورتحال کی شکل کو پیش کرنا ہے۔
یہ دن پاکستان میں آزادی صحافت پرسوالیہ نشان ہے، پاکستان میں آمریت ہو یا جمہوریت ،آزادی صحافت ہر دور میں خواب ہی رہی ہے، گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران صحافی 70 سے زائد دہشتگرد حملوں کی زد میں آئے جبکہ 170 کے قریب فرض کی ادائیگی کے دوران مختلف واقعات میں جان سے چلے گئے۔
ملک میں صحافت اور صحافی غیر محفوظ ہیں جبکہ اربارب اختیار کو شاید پرواہ ہی نہیں، صرف 2022 کی بات کی جائے تو ہراساں کرنے اور حملوں کے 140 کیسز سامنے آئے جن میں 8 خواتین صحافی بھی شامل ہیں، گزشتہ ایک سال میں صحافیوں کیخلاف 56 واقعات کے ساتھ اسلام آباد پہلے، 35 واقعات کے ساتھ پنجاب دوسرے اور 32 کیسز کے ساتھ سندھ تیسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان میں 170 کے قریب صحافی لائن آف ڈیوٹی مارے گئے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف دو صحافیوں کا کیس منطقی انجام تک پہنچا، ایک تو ظاہر ہے ڈینئل پرل تھے، امریکی صحافی اور دوسرا ولی خان بابر کا کیس تھا باقی کسی کیس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہے۔
دباؤ دھونس اور دھمکیاں جھیلتے صحافی ہر لمحہ جان لیوا خطرات میں ہی گھرے نہیں رہتے بلکہ اکثر مار بھی دیئے جاتے ہیں، ان ہی وجوہات کی بنا پر پاکستان صحافت کیلئے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو لاحق خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔
اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔
پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں، صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔
صحافی معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے جو موسم کی سختیوں اور اپنی سماجی زندگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہر مظلوم کی آواز بنتا ہے، مگر ایسا کوئی نہیں جو صحافی کے حقوق کی بھی بات کرے۔
صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کئی سالوں سے کیا جا رہا ہے اور اس کے وعدے بھی مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔