مظفر آباد: ( محمد اسلم میر ) آزاد ریاست جموں و کشمیر میں پی ڈی ایم حکومت کے قیام کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، انہوں نے ابھی تک اپنی کابینہ کے ارکان کو محکمے نہیں دیئے۔
حکومت کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے پریشان ہیں کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اپنی کابینہ کے ارکان کو محکمے نہ دے کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاخیر کے پیچھے ان کے کیا سیاسی مقاصد ہیں اور وہ کب تک وزرا کو محکمے دیں گے۔
دوسری جانب وزیر اعظم نے تا حال میڈیا سے بات کی ہے اور نہ کسی سیاسی جلسے میں شرکت کر کے اپنے حکومتی ایجنڈے کو سامنے لائے، تاہم بعض جگہوں پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اپنی مختصر حکومتی کارکردگی کے بارے میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ وہ آزاد جموں و کشمیر کی گورننس کو درست راستے پر لانے اور اس کے بنیادی انفراسٹرکچر کو ٹھیک کرنے کے لئے روزانہ 19 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر میں گورننس اور انفراسٹرکچر کے بڑے چیلنجز ہیں لیکن بہت جلد عوام کو معلوم ہو جائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت آزاد جموں و کشمیر کو گورننس کے حوالے سے ایک ماڈل بنانے کے لیے کس طرح محنت کر رہی ہے، حکومت کے دعوے اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے آزاد جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین پر سیاست اور یونین بازی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیئے۔
موجودہ حکومت نے وزیراعظم ہاؤس اور دفاتر کے اخراجات کو بھی ماہانہ ایک کروڑ 25 لاکھ سے کم کر کے 12 لاکھ روپے کر دیا، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کے قافلے کی 30 گاڑیاں کم کر کے 4 گاڑیاں کر دی گئی ہیں جو کہ بچت کی طرف ایک آغاز ہے اور اس اقدام کو سیاسی و عوامی حلقوں میں بہت سراہا گیا، آزاد جموں و کشمیر میں نظام کی بہتری کے لئے یہ اقدامات قابل ستائش ہیں، موجودہ حکومت نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، سرکاری آٹے کا ریٹ 1550 روپے فی 20 کلو ہے جبکہ پرائیویٹ مارکیٹ قیمت 3000 روپے فی 20 کلو ہے، اس طرح 1450 روپے کا فرق ہے، 2018 میں یہ فرق صرف 28 روپے تھا، حکومت آٹے کی مد میں سات ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔
اس وقت ایک وزیر پر سالانہ ایک کروڑ 25 لاکھ روپے خرچ ہے اس طرح 30 وزراء پر 37 کروڑ پچاس لاکھ روپے سالانہ خرچ ہے، سابق دور حکومت میں 16 وزراء پر 20 کروڑ کا خرچ تھا اس طرح سترہ کروڑ کا فرق پڑا، سابق دور حکومت میں سیکرٹ فنڈ کی حد دو کروڑ تھی لیکن اس کی مد میں 62 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کئے گئے، وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے تمام اضافی اخراجات کو کم کر دیا ہے۔
اس وقت تک بلا استحقاق 200 گاڑیاں واپس کی گئی ہیں جن سے خزانے میں کروڑوں کی بچت ہوئی ہے، تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہیستالوں کا بجٹ پہلے سات لاکھ روپے تھا جسے بڑھا کر 45 لاکھ روپے سالانہ کر دیا گیا ہے، محکمہ برقیات کو بہتر بنایا جا رہا ہے، ٹرانسفارمرز اب محکمہ خود ٹھیک کرے گا، سڑکوں کی مرمت کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں۔
ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے حوالے سے بعض لوگوں بالخصوص راولاکوٹ ، نیلم ، حویلی اور لیپہ ویلی میں تحفظات ہیں، ان علاقوں میں ایل پی جی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں میں رہنے والے لوگ جنگلات کی لکڑی سے ہی ایندھن کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر جموں و کشمیر میں پرائیویٹ جنگل بھی ہے جس پر حکومت پابندی نہیں لگا سکتی ہے، تاہم پرائیویٹ جنگلات کے سبز درختوں اور سرکاری جنگل کی کٹائی روکنے کے لئے مقدمات قائم کرنے سے لے کر سزائیں بھی تجویز کر سکتے ہیں، پرائیویٹ جنگل کی کٹائی کی آڑ میں اکثر لوگ سرکاری جنگل کو کاٹتے ہیں جس کے لئے گاؤں کی سطح پر کمیٹی تشکیل دی جائے جو محکمہ جنگلات اور انتظامیہ سے مل کر اس بات کی نشاندہی کرے کہ ان کے علاقے میں مستحق شہری کو گھر کی تعمیر کے لئے لکڑی کاٹنے کی اجازت دی جائے۔
آزاد جموں و کشمیر کے بالائی علاقوں میں ایندھن کے استعمال کے لئے خصوصی رعایت دے کر شہریوں کو اجازت دی جائے کہ وہ جنگلات سے گرے اور بوسیدہ درختوں کے ساتھ ساتھ شاخ تراشی کر کے ایندھن کی حد تک اپنی ضروریات پوری کریں۔
مزید برآں آزاد جموں و کشمیر میں خصوصی درختوں چنار، اخروٹ اور شہتوت کی کٹائی کے لئے کمشنر سطح پر محکمہ جنگلات کے اہلکاران سے مل کر سرکاری اجازت نامہ کی شرط رکھ دی جائے اور جو افراد ان خصوصی درختوں کی کٹائی میں ملوث ہوں ان کو پکڑنے کے لئے قانون کو حرکت میں لایا جائے اور ان پر فوجداری مقدمات قائم کئے جائیں تاکہ مستقبل میں درختوں کی کٹائی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔
آزاد جموں و کشمیر میں سرکاری جنگلات کو بچانے سے جہاں علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا، وہیں ماحولیاتی توازن کو بر قرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی، کسی شاعر نے شاید اسی لئے کیا خوب کہا ہے
ہے میسر ہر خوشی جنگلات سے
یہ بچاتے ہیں ہمیں قہر و آفات سے