پڑوس اور اہلِ محلہ کے حقوق

Published On 11 August,2023 12:19 pm

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) انسان اور معاشرت کی بنیاد باہمی اشتراک اور تعاون پرقائم ہے، دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد کا محتاج اور ایک دوسرے کے تعاون اورمدد پر اس کی زندگی کا انحصار ہے، اگر ایک انسان بھوکا ہے تو دوسرے انسان کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے، اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت و تیمارداری کرے، اگر ایک کسی آفت ومصیبت کا شکار ہو اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کا دست وبازو بنے اور اس کے رنج وغم کا مداوا کرے۔

اس اخلاقی نظام کے ساتھ انسان کی ساری آبادی باہمی اخوت ومحبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کے بندھن میں بندھ کر اتحاد و یکجہتی کا مظہر بن جاتی ہے، انسان بظاہر جسمانی اور روحانی حیثیت سے ایک دوسرے سے جتنا علیحدہ اور الگ تھلگ ہے اخلاقی و روحانی لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے گھلا ملا ہو، ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے اتنا ہی پیوستہ ہو، قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے۔

قرآن و حدیث میں قرابت داروں اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بھی مستقل حقوق بیان کئے گئے ہیں، جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے دوسرے مسلمان کے جو حقوق شریعت مطہرہ نے بیان کیے ہیں وہ سب اور ان سے کچھ بڑھ کر ایک مسلمان پڑوسی حقدار ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے قرآن حکیم میں اور رسول محتشم ﷺنے احادیث مبارکہ میں ہمسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ جاتے ہیں، جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کیلئے لازم ہے، قرآن مجید میں ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’ تم اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں (سے)، نزدیکی ہمسائے، اجنبی پڑوسی، ہم مجلس اور مسافر (سے) اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو‘‘(النساء :36)

حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی وصیت ہمسایوں کی خیر خواہی، اس کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کے احترام سے متعلق باذن الٰہی حضرت جبرائیل امین علیہ السلام حضورﷺکی بارگاہ میں احکامات لے کر حاضر ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا‘‘(صحیح بخاری: 5669)۔

ایک انصاری صحابیؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور ﷺ ان کی طرف متوجہ ہیں، میں نے خیال کیا کہ شاید انھیں آپﷺ سے کچھ کام ہوگا، حضور ﷺکھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں، بڑی دیر ہوگئی ،یہاں تک کہ مجھے آپﷺ کے تھک جانے کے خیال نے بے چین کر دیا، بہت دیر کے بعد آپﷺ لوٹے اور میرے پاس آئے، آپﷺنے پوچھا: کیا تم نے انہیں دیکھا ؟میں نے کہا: ہاں! خوب اچھی طرح دیکھا ،فرمایا :جانتے ہو وہ کون تھے ؟ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے، مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے گمان ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے (مسنداحمد:20350)۔

پڑوسی کی اقسام
نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: پڑوسی کی تین اقسام ہیں (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2)وہ پڑوسی جس کے دوحق ہوتے ہیں۔ (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں، بعدازاں خود نبی کریمﷺ نے ان تینوں اقسام کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں: حق پڑوس، حق اسلام اور رشتہ داری کاحق۔ مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حق پڑوس اور حق اسلام۔ مشرک پڑوسی ک اصرف ایک حق ہے: اورہ وہ ہے حق پڑوس۔ (شعب الایمان،باب فی اکرام الجار:9113)

احادیث مبارکہ
پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق بکثرت احادیث مبارکہ ملتی ہیں، ان میں سے چند ایک کا ذکرحسب ذیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں عرض کی: مجھے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے اچھا کام کیا یا برا؟ آپﷺنے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو واقعی تم نے اچھا کام کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو واقعی تم نے برا کام کیا(سنن ابن ماجہ: 4222)۔ جو شخص وقتی اور عارضی طور پر بھی کسی مجلس، کسی حلقے، کسی سواری، کسی دکان، کسی ہوٹل میں آپ کا ہم نشین و ہم رکاب ہو جائے، وہ بھی پڑوسی کہلاتا ہے، اسلامی معاشرہ میں ان لوگوں کو بھی ایک دوسرے پر ہمسائیگی کے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔

پڑوسی کا حق کیا ہے؟
پڑوسی کے حقوق کی اختصارکے ساتھ تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت معاویہ بن حیدہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ بدحال ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو، اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارکباد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو، اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ (المعجم الکبیر : ج 19 ،ص419)

تحائف کا تبادلہ
اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے پڑوسی سے مناسب مواقع پر تحائف کا تبادلہ کرنا چاہیے، تحفے بھیجنے میں پڑوسی، ساتھی یا دوست کی پسند اور ذوق کا بھی خیال رکھا جائے، کچھ اور ممکن نہ ہو تو گھر میں پکا ہوا کھانا ہی پڑوس میں بھجوا دیا جائے، سب سے آسان تحفہ مسکراہٹ کے ساتھ کیا گیا سلام ہے جو پڑوسی کو آپ کی طرف سے امن اور صلح کی نوید دیتا ہے۔

اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا کچھ دور، بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے(صحیح بخاری: 2595)۔

سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی دو
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کرے، پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے (المعجم الاوسط: 3615)۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : جو شخص پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے (المعجم الکبیر: 751) ۔

پڑوسی کو تنگ کرنا اور جھگڑنا
حضور ﷺ نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، عرض کیا گیا: یا رسول اللہﷺ کون؟ فرمایا :کہ جس کا ہمسایہ اس کی تکلیفوں (اور شرارتوں) سے محفوظ نہیں (صحیح بخاری:5670)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔(صحیح بخاری: 6016)

عصر حاضر میں اہم معاملہ یہ ہے کہ پڑوسیوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے بیشتر لوگ ایک دوسرے سے نالاں ہیں، پڑوسی کو تکلیف پہنچانے کی کچھ صورتیں تو بڑی عام ہیں: مثلاً مختلف پروگراموں میں لاؤڈ سپیکر کا بے جا استعمال کرنا، شادی بیاہ کے موقع پر شوروغل کرنا، اونچی آواز میں بات چیت کرنا، کوڑا کچرا یا پانی گلی میں پھینک دینا، ٹینٹ لگا کر راستہ بند کر دینا، مکان تعمیر کرتے وقت ریت اور بجری سے بے احیتاطی کی بنا پر راستہ کی رکاوٹ بننا وغیرہ شامل ہیں۔

پڑوسی سے اختلاف رائے ہونے کی صورت میں طنزیہ جملے کہنا، آوازیں کسنا، لڑائی جھگڑا کرنا، گالی گلوچ کرنا اور ہاتھا پائی تک نوبت لے آنا، ہمسائے کی زمین پر قبضہ کر لینا، ناجائز پارکنگ کرنا، اپنے عہدے یا حیثیت کا ناجائز استعمال کرنا وغیرہ بھی ایذا رسانی کی صورتیں ہیں، ان کا بہترین حل برداشت سے کام لینا اور شکوہ شکایت کو چھوڑ کر پرامن رہنا ہے، اگر پھر بھی معاملات حد سے تجاوز کر رہے ہوں تو دیگر اکابر اہل محلہ سے مشاورت کے ذریعے افہام و تفہیم سے کام لینا ہے، یاد رہے کہ ہمارا حسن سلوک بدترین ہمسائے کو بھی اچھا بنا سکتا ہے۔

پڑوسی سے حسن سلوک
عموماً کسی کو تکلیف دو چیزوں ہاتھ اور زبان سے پہنچائی جاتی ہے، لہٰذا ان دونوں کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور اس کے صحیح استعمال کا سب سے زیادہ حقدار آپ کا پڑوسی ہے، اس لیے کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت ابو شریح خزاعیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ،اسے چاہئے کہ اچھے اندازسے گفتگو کرے یا پھر خاموش رہے (صحیح مسلم: 165)۔

خوش بختی کی علامت
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں: نبی کریمﷺنے فرمایا: مسلمان کی خوش قسمتی میں سے ہے کہ مکان کشادہ، پڑوسی نیک اور سواری عمدہ ہو۔(الادب المفرد، ص53، حدیث116)

اچھے اخلاق
امام غزالیؒ اچھے اخلاق کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: دس عادتیں اچھے اخلاق میں سے ہیں (1) سچ بولنا، (2) لوگوں سے سچائی کیساتھ پیش آنا، (3)سائل کو عطا کرنا، (4) نیکی کا بدلہ دینا، (5) صلہ رحمی کرنا، (6) امانت کی حفاظت کرنا، (7) اپنے پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھنا، (8) دوست کے حق کا خیال رکھنا، (9)مہمان نوازی کرنا، (10) ان سب باتوں کی اصل حیا ہے (احیاء علوم الدین، ج2، ص 775)

خلاصہ مضمون
مذکورہ بالاقرآنی آیات اور احادیث طیبات سے یہ بات واضح ہوئی کہ پڑوس اور اہل محلہ کے خصوصی احکامات ہیں، یہ حقوق العباد کی اعلیٰ تعلیمات ہیں جو اسلام نے ہمیں دی ہیں، پڑوسیوں اور اہل محلہ سے حسن سلوک خوش بختی اور جنتی ہونے کی علامت جبکہ ان سے برا سلوک جہنمیوں کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں پڑوسیوں اور اہل محلہ سے حسنِ سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔

ڈاکٹرمفتی محمد کریم خان زونل خطیب اوقاف اور صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ایچ ای سی سے منظور شدہ25 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔