اسلام آباد: (دنیا نیوز) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط پر قانونی ماہرین نے ملا جلا ردعمل دیتے ہوئے کہا خط کا مقصد سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنا ہے، جبکہ کچھ نے رائے دی صدر نے اختیارات کے مطابق درست کیا۔
ماہر قانون اشتر اوصاف نے ’دنیا نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا صدر مملکت کے خط سے ہیجان پیدا ہوگیا ہے، خط ان کے سرکاری منصب کے مطابق نہیں ہے، اس خط سے آئینی بحران نہیں ہیجان پیدا ہوگا، خط کا ایک ہی مقصد سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنا ہے، صدرمملکت کا مقصد تو حل ہوگیا ہے، یہ سیاسی عدم استحکام ہے، آئینی بحران نہیں ہے، کیا سیاسی قیادت کو خوش کرنے کے لئے ملکی سالمیت کو داؤ پرلگا دیا جائے؟ یہ صدر مملکت نہیں پی ٹی آئی کے ایک کارکن کا لکھا خط ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عام انتخابات 6 نومبر کو ہونے چاہئیں، صدر مملکت نے تجویز دے دی
ماہرقانون راجہ خالد نے کہا گیند ابھی بھی چیف الیکشن کمشنر کے کورٹ میں ہے، نئی مردم شماری کی روشنی میں پہلے حلقہ بندیاں ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن مردم شماری کے مطابق اپنی تیاریاں کرے گا، الیکشن کرانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔
قانونی ماہر حافظ احسان احمد نے کہا سی سی آئی فیصلے کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل جاری ہے، قانون کہتا ہے کہ حلقہ بندیوں کے بعد ہی الیکشن ہوگا، الیکشن کمیشن، وزارت قانون کے جواب کے بعد صدر مملکت کوخاموش رہنا چاہئے تھا، یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں بھی مختلف پٹیشن کی صورت میں جا چکا ہے۔
معروف قانون بیرسٹر اسد رحیم نے کہا اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئیں کہ صدر مملکت انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں یا نہیں، وہ چند اختیارات جو صدر پاکستان کی اپنی صوابدید ہیں، ان میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی شامل ہے، آج بھی صدر پاکستان کی صوابدید ہے کہ وہ وفاقی سطح پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں، صدر مملکت نے بالکل درست کیا کہ الیکشن کمیشن مشاورتی کردار کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو اس عمل میں شامل کیا ہے، اس مشاورت کے نتیجے میں اعلان ہونا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت کی تجویز: چیف الیکشن کمشنر نے مشاورتی اجلاس طلب کر لیا
اسد رحیم نے مزید یاد دہانی کرائی کہ پچھلے صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد قومی سطح پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، امید ہے کہ اس بار بھی وہی عمل ہو گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنا کردار پورے کرے گا، اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ بطور ادارہ کسی ایک تاریخ پر اتفاق نہیں کر پارہے تو اس صورت میں بھی صدر پاکستان تب بھی اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ اعلان کر سکتے ہیں۔
اسد رحیم نے مزید کہا عدالت عظمیٰ نے وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جو آئین میں درج ہیں کہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے، ہم آئین کی دفعات کو الگ الگ نہیں پڑھ سکتے بلکہ پوری دستاویز کو اکٹھا پڑھا جاتا ہے اور یہ ہمارے جمہوری نظام کا مرکز ہے کہ انتخابات 90 دن کی آئینی مدت کے اندر ہر حال میں ہونا چاہئیں، یہ ہمارے الیکٹورل عمل، پارلیمانی نظام اور وفاق کی بنیاد ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔
نامور قانون دان نے کہا کہ جب ہم بات کرتے ہیں کہ تاریخ کا اعلان کرنا کس کی حتمی ذمے داری ہے تو وہ صرف اور صرف صدر کا اختیار ہے، یہ ضرور ہے کہ الیکشن کمیشن سے اس عمل میں مشاورت کرنی ہے اور اس مشاورتی عمل میں شمولیت اختیار کرنی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اسد رحیم کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کے اختیار میں نہیں آتا، جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ صدر کے نام سے ایک تاریخ کا اعلان کر دیتے ہیں، صدر کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ پاکستان میں پہلے گورنر جنرل اور صدر مملکت بھی سربراہان مملکت رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسی کوئی تجویز نہیں دی اور ایسا پہلی بار ہوا ہے، صدر نے اپنے قانونی مشیروں کے کہنے پر ایسا کردیا ہے لیکن صدر کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں خود کو الجھائیں۔
90 دن میں انتخابات کے انعقاد کی قدغن کے حوالے سے سوال پر ماہر قانون نے کہا کہ اگر یہ پتا چل جائے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی سیاسی دھڑے سے مل گیا ہے اور جان بوجھ کر انتخابات ملتوی کررہا ہے اور اس کے شواہد صدر کے سامنے آ جائیں تو صدر مملکت معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتے ہیں اور پھر اگر سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جان بوجھ کر انتخابات ملتوی کرنے کا ثبوت موجود ہو تو چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ ساتھ کمیشن کے اراکین کو بھی نکالا جا سکتا ہے لیکن اگر اس طرح کے شواہد سامنے نہیں آتے تو پھر صدر کوئی زبردستی نہیں کر سکتے۔
سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو اس حوالے سے گمراہ کیا جا رہا ہے اور ان کے آئینی مشیروں کو بھی آئین کا صحیح ادراک نہیں ہے، شاید انہوں نے اس حوالے سے کام نہیں کیا اور سپریم کورٹ بھی یہ غلطی کر چکی ہے جہاں انہوں نے 14 مئی کی تاریخ دے دی تھی اور انہوں نے اسی لئے عملدرآمد نہیں کرایا کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم ایک غلط چیز پر کیسے عملدرآمد کرا سکتے ہیں۔