لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) سلام کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے، سلام اسلام کا شعار ہے، ایک مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو سلام کر کے اس سے دلی محبت کا اظہار کرتا ہے، اسی طرح جس کو سلام کیا گیا ہے وہ بھی جواب دے کر سلام کرنے والے سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔
سلام صرف اسلام کا شعار ہی نہیں ہے بلکہ ایک اہم دینی واخلاقی فریضہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس بات کا خیال رکھو گے‘‘ (النور: 27)، دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، یہ دعائے خیر ہے اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ‘‘ (النور: 61)
اللہ کے محبوب نبی کریم روف الرحیم ﷺ سلام کی ابتداء ’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘ کے کلمات سے فرماتے اور سلام کرنے والے کو جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہتے تھے، لفظ ’’السلام علیکم‘‘ (تم پر سلامتی ہو) اور ’’وعلیکم السلام‘‘ (اور آپ پر بھی سلامتی ہو) دونوں دعائیہ کلمات ہیں جو کہ مسلمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے ہیں گویا مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہی ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں، سلام میں پہل کرنا سنت رسول کریم ﷺ ہے، نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ’’بہترین اسلام یہ ہے کہ تم کھانا کھلاؤ چاہے جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا، سب کو سلام کرو‘‘ (بخاری: 12)، (صحیح مسلم:39)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ ان فرشتوں کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کرو اور سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہاری اولاد کے سلام کا جواب ہوگا، حضرت آدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا ( صحیح بخاری: 6227)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو،کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ (سنن ابی داؤد: 5193)
سلام کو عام کرنے سے مخلوق خدا میں آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور سلام میں پہل کرنا قربتِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سلام کہنے میں پہل کرتے ہیں۔ (ابو داؤد:5197)
شریعت میں سلام کرنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، سوار پیدل چلنے والے کو، تھوڑے افراد زیادہ کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے جبکہ سرکار ﷺ نے فرمایا کہ دو چلنے والوں میں سے جو پہل کرے وہ افضل ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو سلام میں پہل کرے وہ اللہ کے ہاں تمام لوگوں سے بہتر ہے (ترمذی)۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ یہ تھی کہ آپ کسی جماعت کے پاس آتے ہوئے سلام کرتے اور جب واپس ہوتے تب بھی سلام کرتے تھے، اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنے رفیق سے کرے، اگر دونوں کے درمیان درخت یا دیوار حائل ہو جائے تو پھر سامنا ہو تو پھر سلام کرے، اسی حدیث سے سلام کی تاکید ثابت ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ جب رات کو اپنے گھر میں داخل ہوتے تو اس طرح سلام کرتے کہ جاگنے والا سن لے اور جو سویا ہوا ہو وہ نہ جاگے۔
جب آپ ﷺ کسی دروازے پر تشریف لے جاتے تھے تو دروازے کے بالمقابل کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے اور السلام علیکم کہتے تھے۔
آپ ﷺ دوسروں کو بھی سلام پہنچاتے تھے جیسا کہ اللہ کی طرف سے سیدہ حضرت خدیجہؓ کو سلام پہنچایا تھا اور اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں، جب لوگ زیادہ ہوتے اور ایک بار میں سلام نہیں پہنچ پاتا تو تین بار سلام کہتے تھے، جب آپ کو خیال ہوتا کہ پہلی اور دوسری بار نہیں سُنا تو سہ بار سلام کرتے تھے، جس سے ملتے تو خود سلام کرتے تھے اور جب کوئی آپ ﷺ کو سلام کرتا تو آپؐ فوراً اس کو اس سے بہتر جواب عطا فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ’’اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو‘‘۔ (سورۃ النسا:86)
الغرض سلام جواب دعائیہ الفاظ ہیں جو دنیا اور آخرت میں خیر و کامیابی کا ذریعہ ہیں، سلام کی عادت خود میں ڈالنا اور اپنے چھوٹے بچوں کو سلام کی عادت ڈالنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، نبی کریم کا فرمان ہے کہ ’’سلام کو پھیلاؤ اور رات کے کسی حصہ میں قیام کرو تو انشاء اللہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، اللہ ہمیں کریم آقاﷺ کی سنتوں پر اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آقا کی پوری امت کو سلام دعا کا عادی بنا دے۔ آمین
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔