لاہور: (لطیف احمد شیروانی) بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے متحدہ ہندوستان میں مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، یکم جنوری 1940ء کو انہوں نے گاندھی سے اپیل کی کہ وہ اپنے تمام اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہندوؤں سے کہیں کہ وہ کوئی ایسا معاہدہ تجویز کریں جو مسلمانوں کو منظور ہوا اور اس طرح ہم ملک کی خدمت کر سکیں۔
اس کے فوراً بعد ایک مضمون میں جو ’’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘‘، لندن میں شائع ہوا، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ پارلیمانی نظام ہندوستان کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لئے ایک ایسا آئین سامنے آنا چاہئے کہ جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہو کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں جن کو اپنے مادر وطن کی حکومت میں مساوی حقوق ملنے چاہئیں، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے لکھا کہ اس بنیاد پر مسلمان، حکومت برطانیہ، کانگریس یا کسی اور پارٹی سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒکی یہ دونوں کوششیں کانگریس کے اس موقف میں تبدیلی لانے میں ناکام ثابت ہوئیں کہ ہندوستان کیلئے مستقبل کا دستور ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی، یہ موقف مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول تھا، کیونکہ مجوزہ دستور ساز اسمبلی میں اراکین کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ نے ’’ہمارا ملک‘‘ اور مشترکہ مادر وطن کے نظریہ کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا، مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں جو فروری کے پہلے ہفتہ میں منعقد ہوا، علیحدہ وطن کے سلسلے میں مختلف تجاویز پر غور کیا گیا اور اسی اجلاس میں مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد کو واضح خطوط میسر آئے جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مسلمان لفظی معنوں میں اقلیت نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک قوم ہیں، برطانیہ کا جمہوری پارلیمانی پارٹی طرز حکومت ہندوستانی عوام کے حالات اور اندازِ فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہندوستان کے طبعی نقشہ میں موجود ایسے منطقوں کو جہاں مسلمانوں کی اکثریت سے ایسی آزاد ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائے جو بلاواسطہ برطانیہ عظمیٰ سے متعلق ہوں، دوسرے منطقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور دیگر اقلیتیں بھی موجود ہیں ان کے مفادات کو حسب ضرورت موثر تحفظات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح مسلمان منطقوں میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو تحفظات فراہم کئے جائیں ہر منطقے میں شامل حصے خود مختار حصے کے طور پر اس منطقہ کے وفاق کا حصہ ہوں‘‘۔
6 فروری کو جناح نے وائسرائے ہند سے ملاقات کی اور ان کو بتایا کہ اپنے آئندہ اجلاس لاہور میں مسلم لیگ ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرے گی،لاہور کے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 22 مارچ کو اپنی صدارتی تقریر میں کہا ’’ اسلام اور ہندومت ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قومیت کی حیثیت سے اُبھر سکیں گے، ہندوستانی قوم کی یہ غلط فہمی حدود سے تجاوز کر چکی ہے اور یہی ہماری بیشتر مشکلات کا سبب ہے اور اگر ہم نے بروقت اپنے خیالات پر نظرثانی نہیں کی تو یہ غلط فہمی ہندوستان کو تباہ و برباد کر دے گی۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و روایات اور ادبیات سے ہے، ان کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں نہ یہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دو ایسی تہذیبوں کے پیروکار ہیں جن کی بنیاد متصادم خیالات اور تصورات پر ہے، یہ بالکل واضح ہے کہ وہ تاریخ اور ہے جس پر ہندوؤں کو فخر اور ناز ہے اور مسلمان جس تاریخ پر ناز اںہیں اور جس سے ان کے دلوں میں امنگ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے وہ بالکل مختلف ہے۔
ان کی فتوحات اور ناکامیاں ایک دوسرے سے متصادم ہیں لہٰذا دو ایسی قوموں کو ایک ریاست میں اس طرح جکڑ دینے کا نتیجہ کہ ان میں ایک اکثریت میں ہوا اور دوسری اقلیت لامحالہ یہ ہوگا کہ ان میں بے چینی بڑھے گی اور بالآخر تمام نظام درہم برہم ہو جائیگا‘‘۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے واضح طور پر یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان کوئی ایسا دستور قبول نہیں کریں گے جو ہندو اکثریت پر منتج ہو، ہندوؤں اور مسلمانوں کو اگر کسی ایسے جمہوری نظام کے تحت یکجا کیا جائے گا جو اقلیتوں پر مسلط کیا گیا ہو تو اس کے معنی صرف ہندو راج ہوں گے، کانگریس کی ہائی کمان جس قسم کی جمہوریت کی گرویدہ ہے اس کا نتیجہ اہم اسلامی اقدار کی تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا، ہمیں صوبائی آئین کی عملی حیثیت کا گزشتہ اڑھائی سال کے دوران بڑا تجربہ ہے اور اس قسم کے طرز حکومت کا اعادہ خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا‘‘۔
قرارداد پاکستان
مسلم لیگ کی جانب سے آئینی مسائل کے حل کی پیشکش ایک قرارداد کی صورت میں ظاہر ہوئی جو اجلاس لاہور کے دوسرے دن بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق نے پیش کی،’’قرار پایا کہ اس اجلاس کی نہایت سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس ملک کیلئے کوئی آئینی منصوبہ نہ ہی قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کیلئے قابل قبول جب تک کہ اسے ان بنیادی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے یعنی جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی کی جائے اور ضروری علاقائی ردو بدل کیا جائے۔
اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کی طرح جن علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان اکثریت میں ہیں انہیں ’’خود مختارریاستیں‘‘ قرار دیا جائے جس میں ملحقہ یونٹ خود مختار اور آزاد ہوں گے، یہ کہ ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کیلئے ان کے اصلاح مشورے سے دستور میں مناسب موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورہ سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے‘‘۔
مذکورہ بالا شہادتوں کی موجودگی میں جو ایک عرصہ سے اہل علم کی نظروں میں ہیں یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ ایک ممتاز پاکستانی سیاستدان یہ کہے کہ قرارداد پاکستان کی تحریک وائسرائے لنلتھگو کے ایما پر ایگزیکٹو کونسل کے ایک رکن سر محمد ظفر اللہ خان کے ذریعہ ملی تھی، اس سیاستدان نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیان کی حمایت میں چند سرکاری دستاویزی شہادتیں بھی دیکھی ہیں۔
یہاں تعجب خیز بات یہ ہے کہ لنلتھگو کے ایک طویل خط سے جو اقتباسات انہوں نے اپنے بیان کی حمایت میں اخبارات میں شائع کرائے ہیں، یہ ہندوستان کے (Dominion status)کے بارے میں سر ظفر اللہ خان کے ایک نوٹ کو ظاہر کرتے ہیں جو مسلم لیگ کی منظوری کیلئے اس پیش بندی کے ساتھ تیار کیا گیا تھا کہ اس کی بڑی پیمانے پر تشہیر کی جائے گی اور یہ بات لنلتھگو پورے طور پر سمجھ نہ سکے تھے۔
یہاں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ اس حاشیہ کو مسلم لیگ کو بھیجنے کا یہ مقصد دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ کو تقسیم ہند کی اس قرارداد کی منظوری سے باز رکھا جائے جس کا ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا، اور جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ لنلتھگو کے علم میں لایا جا چکا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ سے ہندوؤں کے مقابلہ میں ایک علیحدہ قوم تھے، جیسا کہ معروف ہندوستانی مورخ کے ایم پانیکار نے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں اسلام کے بحیثیت مذہب تعارف کا مرکزی نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ عمودی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، تیرھویں صدی سے قبل ہندو معاشرہ افقی بنیادوں پر منقسم تھا اور نہ بدھ مت اور نہ جینی مت اس تقسیم کو متاثر کر سکے۔
وہ باہم جذب ہونے والے عناصر نہ تھے اور نہ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکتے تھے جب کہ دوسری طرف اسلام نے پورے ہندوستانی معاشرہ کو اوپر سے نیچے تک دو حصوں میں بانٹ دیا اور اب جو چیز سامنے آئی ہے وہ علیحدہ قومیتیں ہیں جن کی بنیاد روز اوّل ہی سے پڑ گئی تھی، ایک زمین پر دو متوازی معاشرے متشکل ہو گئے، جو ہر سطح پر ایک دوسرے سے اس قدر مختلف تھے کہ شاید ہی ان کے درمیان کوئی سماجی رابطہ یا زندگی کی باہم آویزش موجود ہو‘‘۔
اس حقیقت کا اعتراف خود کانگریس نے 1916ء میں مسلم لیگ کے ساتھ ہونے والے میثاق لکھنئو پر دستخط کرتے ہوئے کیا تھا لیکن 1935ء کے ایکٹ کے تحت صوبائی خود مختاری کے آغاز کے ساتھ جس نے کچھ علاقوں میں ہندوستانیوں کو حقیقی اختیارات تفویض کئے کانگریس کے رہنماؤں کو یہ خیال آیا کہ وہ مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کو ختم کر سکتے ہیں، اس طرز عمل کیلئے مسلمان تیار نہیں تھے۔
تاریخ کے اس نہایت سنگین موڑ پر مسلمانوں کو ایک نہایت باصلاحیت شخصیت محمد علی جناحؒ کی رہنمائی حاصل ہوئی جو نہ صرف ایک کامیاب وکیل تھے بلکہ عظیم تر تنظیمی صلاحیتوں کے حامل تھے، انہوں نے سب سے پہلے کانگریس کے رہنماؤں سے کہا کہ فرقہ وارانہ مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اقتدار میں ان کا جائز حصہ دیا جائے، یہ دلیل بڑے پیمانے پر حتیٰ کہ اعتدال پسند ہندوؤں نے بھی تسلیم کر لی، لیکن اس وقت مسلمان چونکہ بہتر انداز میں منظم نہیں تھے، اس لئے کانگریس نے محمد علی جناح کے استدلال پر زرہ برابر توجہ نہیں دی۔
اس مرحلہ پر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر منظم کیا تاکہ کانگریس سے مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت تسلیم کرائی جا سکے، لیکن اس کے باوجود کانگریس کے رہنماؤں نے مسلمانوں کو درخور اعتنا تصور نہیں کیا، چونکہ ہندوستان کے دو علاقوں میں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں تھے، چنانچہ ایک کھلی ہوئی حقیقت کو کانگریس کی جانب سے تسلیم نہ کرنے کے نتیجہ میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا۔
ایک ایسی مسلمان ریاست کا قیام جس میں مسلمان اسلامی اصولوں اور اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں گے، قرارداد پاکستان کی روح تھی چنانچہ اس قرارداد نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تمام تر توجہ اپنی جانب مبذول کر لی، لیکن بڑی واضح وجوہات کی بناء پر اس ضمن میں ہندوؤں کا ردعمل مخالفانہ تھا۔
ہفت روزہ اخبار ’’ہربجن‘‘ میں 6 اپریل کو گاندھی نے لکھا کہ مسلمانوں کا ادراک اور ذاتی مفادات کا فہم ان کو ہمیشہ ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے سے روکے رکھے گا، دو قومی نظریہ غیر حقیقی ہے، ایک ہفتہ بعد گاندھی نے پھر لکھا کہ ’’ میں تقسیم میں کبھی پرجوش پارٹی نہیں بن سکتا اور میں اس کو روکنے کیلئے ہر قسم کے عدم تشدد کے ذرائع اختیار کروں گا‘‘۔
ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود برصغیر کے مسلمان اپنے الگ وطن کے مطالبہ سے پیچھے نہ ہٹے اور اس کی واضح اور بنیادی وجہ قرارداد پاکستان ہی تھی جو بالآخر ایک عظیم اسلامی مملکت کے قیام پہ منتج ہوئی۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی صدارتی تقریر
’’اسلام اور ہندومت ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قومیت کی حیثیت سے نہیں اُبھر سکتے، ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و روایات اور ادبیات سے ہے، نہ ان کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں اور نہ یہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دو ایسی تہذیبوں کے پیروکار ہیں جن کی بنیاد متصادم خیالات اور تصورات پر ہے، لہٰذا دو ایسی قوموں کو ایک ریاست میں اس طرح جکڑ دینے سے بے چینی بڑھے گی اور بالآخر تمام نظام درہم برہم ہو جائے گا‘‘۔
مینار پاکستان کی کہانی
قیام پاکستان کے بعد قرار داد لاہور کی یاد میں منٹو پارک میں ایک یاد گار بنانے کا فیصلہ کیا گیا، 23 مارچ 1960ء کو مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین نے مینار پاکستان کی تعمیر کیلئے ایک کمپنی تشکیل دی، اس مینار کی تعمیر کیلئے پہلے فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش رہا، 1965ء میں یہ مسئلہ حل ہوا اور 22 مارچ 1968ء کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی جس پر کل 75 لاکھ روپے لاگت آئی۔
مینار پاکستان کا ڈیزائن ترک آرکیٹکٹ مورات خان نے بنایا جس نے آزادی کی اس 62 میٹر بلند یادگار کو زمین سے 2 میٹر اونچے چبوترے پر ڈیزائن کیا، مینار کے چاروں اطراف پھول کی کھلی پتیوں جیسے 9 میٹر اونچے سٹرکچر،2 چاند نما تالاب ، پانچ کونی ستارے سے مشابہ چبوترا اور چاروں اطراف پھیلے سبز باغیچے مینار کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
مینار پاکستان 18 ایکڑ رقبے پر محیط تھا، اب سڑکوں اور فلائی اوور بننے کے بعد تقریبا 2.8 ایکڑ رقبہ کم ہوگیا ہے، مینار پاکستان کا قطر ساڑھے 97 میٹر ہے جس کے درمیان مینار پر چڑھنے کیلئے سیڑھیاں اور لفٹ نصب کی گئی ہے، مینار کا فرنٹ بادشاہی مسجد کی طرف ہے جس کے اطراف چار چبوترے بنائے گئے ہیں، پہلا چبوترا بغیر تراشے ٹیکسلا کے پتھر سے بنایا گیا ہے، دوسرا ناہموار پتھر سے اورتیسرا ہموار پتھر سے جبکہ چوتھا سفید پتھر سے بنایا گیا ہے۔
مینار پر قرار داد لاہور اور قرار داد دہلی کی عبارات اردو، بنگالی اور انگریزی زبان میں کشیدہ ہیں، اس کے احاطے میں حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے۔
لطیف احمد شیروانی معروف محقق اور دانشور تھے،انہوں نے تحریکِ پاکستان سمیت متعدد موضوعات پہ انگریزی کتب لکھیں جن کے اردو تراجم کئے گئے۔