سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کی درخواستیں منظور کر لیں

Published On 27 June,2025 01:47 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشستیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعتیں مکمل کرلیں، سماعت آئی بینچ کے 11 کے بجائے 10 رکنی بینچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی، قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہوئے۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تھوڑی دیر میں شارٹ آرڈر جاری کریں گے، شارٹ آرڈر کا انتظار کریں بعدازاں بینچ نے مختصر فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے 3-7 کی اکثریت سے نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں، عدالت نے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

مختصر فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے پڑھ کر سنایا، آئینی بینچ کے مطابق تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کی سماعت کے درمیان جسٹس جمال مندوخیل سمیت دیگر ججز اور وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران حامد خان نے کہا کہ مثالیں موجود ہیں آپ یہ سماعت نہیں کر سکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہاں لکھا ہے کہ ہم کیس کی سماعت نہیں کر سکتے؟ سپریم کورٹ رولزمیں دکھائیں کیسے نہیں کرسکتے سماعت؟

یہ سپریم کورٹ ہے، مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے: جسٹس مندوخیل
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ نے دلائل دینے ہیں تو دیں ورنہ واپس کرسی پر بیٹھ جائیں، یہ سپریم کورٹ ہے، مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ اچھے وکیل ہیں مگر جو آپ نے کیا ہے یہ اچھے وکیل کارویہ نہیں ہے۔

عزت سے بات کریں: وکیل حامد خان کا جسٹس مندوخیل سے مکالمہ

حامد خان نے جواب دیا آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں، آپ اتنی سختی کیسے کرسکتے ہیں؟ میں سپریم کورٹ کی عزت کرتا ہوں آپ میرے کنڈکٹ پر بات کیسے کرسکتے ہیں؟ جس پر جسٹس مندوخیل نے تنبیہ کی کہ ایسا نہیں کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی۔

اس موقع پر حامد خان نے جسٹس مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے، سن تو لیں، عزت سے بات کریں۔

وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثال ہے، قاضی فائزعیسیٰ کیس میں طے ہوا اصل کیس سے کم ججز نظرثانی کیس کی سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا نام نہ لیں آپ سپریم کورٹ رول پڑھیں، حامد خان نے جواب دیا میں کیوں قاضی فائز عیسی کا نام نہ لوں؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہمیں سختی کرنا آتی ہے، آپ کو کہا ہے رول پڑھیں۔

عزت سے عزت ملتی ہے، آج ہم ہیں کل نہیں ہوں گے: جسٹس جمال

حامد خان نے جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ غصے کی حالت میں ہیں یہ سماعت نہ کریں، اس پر جسٹس مندوخیل نے جواب دیا "مائنڈ یور لینگویج"! میں کس حالت میں ہوں مجھے معلوم ہے، میں اس ادارے کی خاطر اپنی والدہ کی فاتحہ چھوڑ کرآیا ہوں آپ مذاق پر تلے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عزت سے عزت ملتی ہے، آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے، آج ہم ہیں، کل ہم نہیں ہوں گے۔

وکیل حامد خان نے دلائل دیئے کہ 13 ججز کے فیصلے کے خلاف 10 جج بیٹھ کر سماعت نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 13 میں سے الگ ہونے والے ججز کی رائے بھی شمار ہو گی۔

وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا ہم احترام کرتے ہیں مگر 26 ویں ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی، آپ نے 26 ویں ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا، آپ نے بائیکاٹ کیا، جب تک 26 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے ہم اس کے پابند ہیں یا تو آپ اس سسٹم کو تسلیم کر لیں یا پھر وکالت چھوڑ دیں۔

آپ نے سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا: جسٹس ہاشم

دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کیے، آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدواروں کو قانون کے مطابق 3 دن کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نوٹیفکیشن کے بعد الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے کسی نے یہ درخواست کی کہ انہیں مخصوص نشست دی جائے؟

انہوں نے واضح کیا کہ عدالت نے ہر ممکن موقع فراہم کیا، ہم نے آپ کو اتنے شارٹ پچ بال دیئے کہ آپ چھکے لگا سکتے تھے لیکن آپ نہ لگا سکے، عدالت نے پی ٹی آئی کو بھی بارہا موقع دیا کہ وہ آکر عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرے لیکن وہ پیش نہ ہو سکے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ علی محمد خان عدالت میں موجود تھے، ہم نے 10 مرتبہ کہا کہ کوئی روسٹرم پر آ جائے لیکن کوئی نہیں آیا۔

انہوں نے شمولیت کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ یہ جاننا ضروری ہے کہ کس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا؟ اس نوعیت کے فیصلے کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔

جسٹس مندوخیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب اس سارے نقصان کا ملبہ عدالت پر ڈالا جا رہا ہے حالانکہ عدالت نے فریقین کو مکمل موقع دیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ضروری ہے کہ حقائق سامنے لائے جائیں، سنی اتحاد کونسل کو 13 رکنی بنچ نے واضح طور پر بتایا تھا کہ ان کا حق نہیں بنتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت اس وقت ہی کوئی فیصلہ کرتی ہے جب اس کے سامنے 2 فریق موجود ہوں۔

ہم نے بطور عدالت اپنے اختیارات کو بہت پھیلا لیا: جسٹس جمال

سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے خود احتسابی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج تسلیم کرتا ہوں کہ ہم نے بطور عدالت اپنے اختیارات کو بہت پھیلا لیا ہے اور یہی بات اس وقت کی صورت حال کا باعث بنی ہے۔

اس موقع پر وکیل حامد خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ اکثریتی جج بنچ میں موجود ہوتے تو آپ کو بتاتے، ان کا اشارہ سابقہ فیصلوں اور ججز کی مختلف آرا کی جانب تھا۔

حامد خان کا بنچ پر اعتراض مسترد

بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حامد خان کا بنچ پر اعتراض مسترد کردیا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا بنچ ٹوٹ گیا

قبل ازیں سپریم کورٹ میں جاری مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کی سماعت کے آغاز میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کر لی جس پر کیس کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا ہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد لازم ہے، ضروری ہے کسی فریق کا بنچ پر اعتراض نہ ہو۔

جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ حامد خان نے بنچ میں کچھ ججز کی شمولیت پر اعتراض کیا، جن ججز کی 26 ویں ترمیم کے بعد بنچ میں شمولیت پراعتراض ہوا میں بھی ان میں شامل ہوں، میں ان وجوہات کی بنا پر بنچ میں مزید نہیں بیٹھ سکتا، میں اپنا مختصر فیصلہ پڑھنا چاہتا ہوں۔

جسٹس صلاح الدین نے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ کا اعتراض ہمارے اس بنچ میں بیٹھنے سے تھا، ذاتی طور پر تو آپ کا میرا ساتھ 2010 سے رہا ہے، آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا مگریہاں میری ذات کا معاملہ نہیں ہے۔

ججز پر جانبداری کا الزام لگا جس سے تکلیف ہوئی: جسٹس پنہور

جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ ججز پر جانبداری کا الزام لگا جس سے تکلیف ہوئی، عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے درست نہیں۔

اس موقع پر وکیل حامد خان نے کہا کہ میں آپ کے اقدام کا خیر مقدم کرتا ہوں، اس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ خیرمقدم کرنے کا معاملہ نہیں ہے، ہم اسی کیس میں سنی اتحاد کونسل کے دوسرے وکیل کو سن رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے، ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو موقع دیا، آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔