نئے صوبوں کی بحث زور پکڑنے لگی

Published On 04 September,2025 09:48 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک میں گورننس کے مسائل کے حل کیلئے نئے صوبوں کے قیام کی باتیں زور پکڑتی جا رہی ہیں، پاکستان میں نئے انتظامی یونٹس کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے اس کی بڑی وجہ موجودہ صوبوں کا غیر حقیقی سٹرکچر ہے۔

ملک کا گورننس کا نظام ناکامی کی طرف جا رہا ہے جہاں ریاست کیلئے عام شہری کی بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات سمیت بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے، بد ترین گورننس پاکستان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے، اس سٹرکچر کے تحت حکومتی اداروں کو ڈیلیور کرنے میں مشکل ترین صورتحال کا سامنا ہے، عام شہریوں کیلئے تعلیم، صحت کی سہولیات اور انصاف نہ ملنا موجودہ غیر حقیقی گورننس سٹرکچر کا تحفہ ہے۔

گورننس پر کام کرنے والے کئی تھنک ٹینکس نے حالیہ عرصے میں اس صورتحال پر غور و خوض شروع کر دیا ہے، اس حوالے سے چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود کی تحقیق بھی کتابی صورت میں سامنے آچکی ہے جو اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والے کئی سیمینارز میں پڑھی جا چکی ہے اور اسے سول سوسائٹی اور پالیسی میکرز کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بیسیوں ممالک سے بڑے ہیں، اسی کتاب کے مطابق دنیا میں صرف امریکا، چین ، بھارت، روس، مصر ، انڈونیشیا سمیت 12 ملک ایسے ہیں جن کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہے، اسی طرح دنیا کے صرف 31 ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے۔

دنیا کے صرف 41 ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی خیبر پختونخوا سے زیادہ ہے، باقیوں کی آبادی اس سے کم ہے، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 172 ممالک سے بڑا ہے، 1955ء میں ون یونٹ کے قیام سے قبل پاکستان کے صوبوں میں آبادی آج کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق 1951ء میں پاکستان کی آبادی تین کروڑ 37 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جو اب 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، 1951ء میں پنجاب کی آبادی دو کروڑ چھ لاکھ تھی جو اَب 12 کروڑ 78 لاکھ نفوس پر پہنچ چکی ہے، سندھ کی آبادی صرف 60 لاکھ تھی جو اَب ساڑھے پانچ کروڑ سے بڑھ چکی ہے، خیبر پختونخوا کی آبادی 1951ء میں 58 لاکھ تھی جو اَب چار کروڑ ہو چکی ہے، بلوچستان کی آبادی 11 لاکھ تھی جو اَب ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبوں میں آبادی کا تناسب اتنا خراب ہو چکا ہے کہ چار میں سے صرف ایک صوبے کی آبادی پورے ملک کی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے، یعنی پنجاب آبادی کے لحاظ سے باقی تینوں صوبوں کو ملا کر بھی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پارلیمان میں پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی سب سے زیادہ ہیں اور آبادی کے لحاظ سے نشستوں کی تقسیم کے باعث پنجاب کی نشستیں ہی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بنا سکتی ہیں، دنیا کے اور کسی ملک کے صوبوں میں آبادی کا تناسب ایسا نہیں ہے، میاں عامر محمود صاحب کی کتاب میں امریکا اور بھارت کی ریاستوں میں آبادی کے تناسب کی مثال دی گئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ امریکا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست کیلیفورنیا کل آبادی کا 12.18 فیصد ہے اسی طرح بھارت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کل آبادی کا 16.49 فیصد ہے، اسی طرح اس سے کم آبادی والی بڑی ریاستوں میں آبادی کا تناسب پاکستان کی طرح انتہائی کم نہیں جیسا کہ پنجاب کے مقابلے میں دیگر صوبوں کا ہے، دنیا میں جس جس جگہ آبادی کا تناسب تبدیل ہوا وہاں نئے یونٹس تشکیل دیئے گئے مگر پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت پر بات کی جائے تو کچھ سیاسی اور صحافتی حلقے اسے منفی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ نہ صرف ملکی ترقی بلکہ عام شہریوں کے مسائل کے حل کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔

آبادی کے اس تناسب اور بے ہنگم سائز میں بنائے گئے انتظامی یونٹس کے ہوتے ہوئے کسی طرح بھی گورننس کو بہتر نہیں کیا جا سکتا، صوبے بنانے کی حمایت کرنے والے حلقے اسے لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر تقسیم کی بات کرتے ہیں تاکہ سیاست یا لسانیت کی بجائے حقیقت کو سامنے رکھنے والے ایسے یونٹس بنائے جائیں جو عوام کو ڈیلیور کر سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ حمایت تمام ڈویژنز کو نئے صوبوں کا درجہ دینے کو مل رہی ہے، صوبے بنانے کے ناقدین یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ نئے یونٹس کے قیام سے انتظامی اخراجات میں اضافہ ہوگا جبکہ یہ توجیہہ درست نہیں ہے کیونکہ اگر صوبے موجودہ ڈویژنز کی سطح پر بنائے جاتے ہیں تو اس سے انتظامی اخراجات کم ہو جائیں گے اور ڈویژن کے سطح پر موجودہ انفراسٹرکچر ہی صوبائی انفراسٹرکچر میں تبدیل ہو جائے گا، یوں موجودہ وسائل کا درست استعمال یقینی بن سکے گا، مگر پاکستان کے آئین سازوں نے حیران کن طور پر نئے صوبوں کے قیام کو مشکل بنا رکھا ہے، آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت صرف پارلیمنٹ نئے صوبوں کے قیام کا فیصلہ نہیں کر سکتی بلکہ یہ طاقت متعلقہ صوبے کی صوبائی اسمبلی کو دی گئی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 239 چار میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم کا وہ بل جس میں صوبے کی حدود کو تبدیل کیا جانا مقصود ہو وہ صدر کو توثیق کیلئے اس وقت تک نہیں بھیجا جا سکتا جب تک متعلقہ صوبے کی اسمبلی اسے دو تہائی اکثریت سے منظور نہ کرلے، اس شق کے مطابق صرف پارلیمان میں ہی دو تہائی اکثریت درکار نہیں بلکہ جس صوبے کو مزید تقسیم کیا جانا ہے اس اسمبلی میں بھی صوبہ بنانے کی حمایتی سیاسی جماعتوں کے پاس دو تہائی اکثریت ہونا ضروری ہے۔

اب اگر ستائیسویں آئینی ترمیم میں آئین کے سٹرکچر میں اہم تبدیلیوں کی باتیں ہو رہی ہیں ایسے میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے سیاسی اتفاق رائے قائم کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے اور یہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے شروع ہونے والی بحث ملک کیلئے خوش آئند ہے۔