لاہور (دنیا نیوز) پنجاب گروپ کے زیرِ اہتمام انڈس کونکلیو 2025 میں ہفتے کے روز 'اختیارات کی منتقلی: سماجی شعبے کی ترقی کے لیے ایک محرک' کے عنوان پر مکالمہ ہوا، جس میں معروف ماہرین نے شرکت کی۔
سیشن میں ترقیاتی امور کی ماہر ڈاکٹر فرح ندیم، صحتِ عامہ کی ماہر ڈاکٹر یاسمین قاضی اور گورننس کی ماہر فوزیہ یزدانی نے شرکت کی جبکہ نظامت ذیشان صلاح الدین نے کی۔
گفتگو کا مرکز پاکستان کا نظامِ حکومت، سماجی شعبے میں موجود خلا اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی فوری ضرورت تھا، مقررین نے مؤقف اختیار کیا کہ تعلیم، صحت اور آبادی سے متعلق مسائل اب تک حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ ناقص حکمرانی اور بااختیار مقامی اداروں کی کمی ہے۔
ہمیں موثر مقامی حکومت کی ضرورت ہے: فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی نے کہا کہ 2010 کی 18 ویں ترمیم کے بعد اختیارات کی منتقلی رک گئی، جس کی وجہ زیادہ تر سیاسی مفادات تھے نہ کہ حقیقی سماجی شعبے کی اصلاحات، ہمیں مزید صوبوں کی نہیں، مؤثر مقامی حکومت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ مشرف کے دور میں مقامی کونسلوں کے پاس آمدنی جمع کرنے کے ماڈل اور جوابدہی کے نظام موجود تھے جو بعد میں ختم کر دیئے گئے، اگر بااختیار ادارے قائم کیے جائیں تو وہ جوابدہی اور عوامی مسائل کے فوری حل کو بحال کر سکتے ہیں۔
فوزیہ یزدانی نے کہا کہ جوابدہی ایک بہت مثبت معیار ہے، اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ شہری مقامی کونسلروں سے براہِ راست رابطہ کر سکتے ہیں، جو قومی قانون سازوں کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا۔
ان کے بقول، کمیونٹیز اکثر ایم پی ایز اور ایم این ایز سے وہ کام کروانے کی توقع رکھتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتے، جیسے کہ مقامی صفائی، انہوں نے کہا کہ کونسلوں کو مضبوط بنانے سے حکمرانی اپنے اصل فرائض کے مطابق ہوگی۔
آبادی اور عدم مساوات
فوزیہ یزدانی نے پاکستان کے نظامِ حکومت کے بحران کو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے جوڑا اور اسے متعدد ناکامیوں کی جڑ قرار دیا، انہوں نے 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی عورت 6 بچوں کو جنم دے رہی ہے جبکہ 24 فیصد خواتین اپنی صحت سے متعلق فیصلے خود نہیں کر سکتیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 38 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور 42 فیصد خواتین کا خیال ہے کہ شوہر کا بیوی پر تشدد کرنا جائز ہے، انہوں نے آبادی کی منصوبہ بندی کو ایک مسئلہ یا موضوع قرار دیا جسے ممنوع سمجھا جاتا ہے اور جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے۔
فوزیہ یزدانی نے کہا آج تک آبادی کنٹرول کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا اور مؤقف اختیار کیا کہ تعلیم اور صحت کے اہداف کو حاصل کیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔
ڈاکٹر یاسمین قاضی نے بھی اس بات کی تائید کی کہ فیملی پلاننگ پر عوام کی خاموشی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، پینلسٹوں نے خبردار کیا کہ اگر آبادی کے دباؤ کو نظرانداز کیا گیا تو یہ صوبوں اور اضلاع کے درمیان عدم مساوات کو مزید گہرا کر دے گا۔
حکمرانی کا مستقبل
سیشن میں شریک ڈاکٹر فرح ندیم سمیت دیگر مقررین نے وسائل کی منصفانہ تقسیم، ادارہ جاتی اصلاحات اور سماجی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا۔
ماہرین کے درمیان مکالمہ تعلیم اور روزگار کے درمیان عدم مطابقت تک بھی پھیل گیا، جس میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی 2015 کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، جس نے خبردار کیا تھا کہ ایک دہائی کے اندر پاکستان کو ایسے افراد کا سامنا ہوگا جن کے پاس ڈگریاں ہوں گی مگر نوکریاں نہیں۔
اس موقع پر ڈیجیٹل کلچر کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا گیا کہ یہ مواقع کے ساتھ ساتھ خطرات بھی پیدا کر رہا ہے، ایک پینلسٹ نے کہا ہم سب فوری حل چاہتے ہیں، ٹک ٹاک ٹھیک ہے، واٹس ایپ میسج ٹھیک ہے لیکن ہم کتابیں پڑھنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ شارٹ کٹ طریقے گہری اصلاحات اور سیکھنے ، سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
مقررین نے پائیدار عدم مساوات کی بھی نشاندہی کی، خاص طور پر خواتین کی حکمرانی میں کم نمائندگی اور عوامی مباحثے میں ان کی ظاہری شکل پر بات چیت کو ان کی صلاحیتوں کے بجائے ترجیح دیئے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ بامعنی تبدیلی کے لیے مقامی حکومت کا ادارہ جاتی قیام، زیادہ جوابدہی، اور قومی سطح پر مشکل مسائل کا سامنا کرنے کی رضامندی ضروری ہے۔