انڈس کونکلیو 2025: مصنفین کا ادبی ترجمے کے فن، چیلنجز اور سیاست کا جائزہ

Published On 04 October,2025 09:06 pm

لاہور: (دنیا نیوز) انڈس کونکلیو 2025 کے دوسرے دن لاہور کے الحمرا میں ہفتے کو 'مصنفین بطور مترجم' کے عنوان سے ایک نشست منعقد ہوئی جس میں ادبی دنیا کے مختلف حلقوں کے اعلیٰ پائے کے مصنف اکٹھے ہوئے تاکہ ترجمے کے فن، چیلنجز اور سیاست کا جائزہ لیا جا سکے۔

نشست کی نظامت انیقہ وٹو نے کی جبکہ پینل میں امریکی مترجم اور آرٹسٹ ڈیزی راک ویل، شاعر اور ناول نگار سید کاشف رضا اور پبلشر حوری نورانی شامل تھیں، گفتگو میں ذاتی تجربات، اشاعتی نظام میں ساختیاتی مسائل اور ترجمے کی وہ طاقت زیر بحث آئی جس کے ذریعے نئے ثقافتی دریچے کھلتے ہیں۔

فن اور اسلوب

ڈیزی راک ویل نے اپنے ابتدائی مشترکہ ترجمہ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک اردو مترجم کے ساتھ مل کر رابرٹ فراسٹ کی نظموں کا ترجمہ کیا کرتی تھیں اور ان اردو ترجموں کی بصری خطاطی بھی تخلیق کرتی تھیں۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا یہ وہ وقت تھا جب ترجمہ لفظی طور پر میرے فن کا حصہ بن گیا تھا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ابتدائی تجربات میں بصری اظہار اور زبان کس طرح ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے تھے۔

سید کاشف رضا نے اپنے ترجمہ کے انداز کو مغربی عجائب گھروں میں فن کے طالبعلموں کے ان مشقوں سے تشبیہ دی، جن میں وہ مشہور مصوروں کی پینٹنگز کی نقل کرتے ہیں، ان کے مطابق، متن کو اردو میں ڈھالنے کا مطلب ہے سطح بہ سطح، سایہ بہ سایہ ترجمہ کرنا، جس میں اصلوبیاتی ساختوں کو بھی منتقل کرنا شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈس کانکلیو: ماہرین کی گورننس، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال میں اہم خلا کی نشاندہی

انہوں نے محمد خالد اختر کو اپنی ایک بڑی ادبی تحریک قرار دیا، جن کی اردو تحریریں انگریزی ساخت کا آہنگ رکھتی تھیں، کاشف رضا نے کہا جب میں میلان کنڈیرا اور جیمز جوائس جیسے مصنفین کا ترجمہ کرتا ہوں تو ان کے جملوں کی ساخت کو اردو میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں اس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

پینل کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ترجمہ صرف لفظوں کی تبدیلی نہیں بلکہ دونوں زبانوں کی ثقافتی، تاریخی اور جذباتی تہوں کے ساتھ گہری وابستگی کا عمل ہے، اسی لیے ترجمہ ایک تخلیقی عمل ہوتا ہے، نہ کہ محض مواد کی منتقلی۔

اشاعت کی حقیقتیں

پبلشر حوری نورانی نے پاکستان میں ترجمہ شدہ کتب کی تیاری میں ایڈیٹوریل فیصلوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ ترجمے میں جملوں کی ساخت کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے، کیونکہ انگریزی اور اردو کی ساخت میں نمایاں فرق ہے۔

انہوں نے وضاحت کی اگر جملہ درست طریقے سے نہیں بٹھایا جائے تو وہ صحیح نہیں لگتا اور بعض اوقات سمجھ بھی نہیں آتا، حوری نورانی نے اپنے ادارے کے ترقی پسند ادب سے طویل وابستگی کا ذکر کیا، جو 1967 میں ان کے مرحوم والد کی جانب سے قائم کی گئی تھی اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے جڑا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اشاعت کے لیے  مخطوطات  کا انتخاب کرتے وقت موضوع، مترجم کی قابلیت اور نظریاتی ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جاتا ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترجمے کا صرف ادبی معیار ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ مقامی قارئین کے ساتھ کس حد تک ہم آہنگ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نچلی سطح پر اختیارات منتقل نہیں کرنے تو پھر صوبے بنائیں: مفتاح اسماعیل

حوری نورانی نے اشاعت کے عملی اور سیاسی چیلنجز کی جانب بھی توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ سنسرشپ آج بھی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کیا شائع کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔

انہوں نے کہا بعض اوقات ہمیں الفاظ اور لہجے پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے تاکہ کتاب پریس سے بچ جائے کہیں شائع ہونے سے رہ نہ جائے، اور اس بات کی نشاندہی کی کہ ایڈیٹوریل کام اکثر اوقات مزاحمت کی ایک صورت بن جاتا ہے۔

پذیرائی اور رکاوٹیں

ڈیزی راک ویل نے گیتانجلی شری کے ناول  ریت کے مقبرے  (Tombs of Sand) کے اپنے کتابی انعام یافتہ ترجمے کا ذکر کیا، جو یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی بھارتی کتاب بنی، اگرچہ اس کتاب کو عالمی سطح پر سراہا گیا لیکن راک ویل نے مغربی اشاعتی دنیا کی تنگ نظری کی نشاندہی کی، وہ صرف وہی چیزیں چاہتے ہیں جو بالکل Tombs of Sand جیسی ہوں، حالانکہ ویسا کچھ اور ہے ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے بہت سے ادبی کام بین الاقوامی پبلشروں کی نظر سے اس لیے اوجھل رہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے  غیر ملکی  یا  منفرد  بیانیوں کے طے شدہ سانچوں پر پورا نہیں اترتے، اس سوچ نے ایک رکاوٹ پیدا کر دی ہے، اس لیے صرف مخصوص انداز اور کہانیاں برِصغیر سے باہر جا پاتی ہیں۔

اس کے برعکس سید کاشف رضا نے اپنی ایک کامیاب مثال بیان کی، جب ان کے ناول  چار درویش اور ایک کچھوا  کا جرمن زبان میں ترجمہ ہوا اور 9 شہروں میں اس کا اجرا کیا گیا، مترجمہ الموتھ ڈیگنر نے اس کام کو خود دریافت کیا اور پرجوش انداز میں ان سے رابطہ کیا۔

رضا نے بتایا وہ 15 یا 16 زبانوں سے واقف ہیں اور ان کی لسانی مہارت کو سراہا، انہوں نے اس تجربے کو غیر معمولی قرار دیا کہ ان کا اردو ناول جرمن زبان میں نئے قارئین کے سامنے موضوعِ بحث بن رہا تھا جو پاکستانی فکشن میں بڑھتی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈس کونکلیو 2025 کا دوسرا روز: علم و ادب، سیاست، معیشت اور تعلیم پر جامع سیشنز

تاہم انہوں نے اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی کہ اردو کے کئی ادیب اپنے ہی ملک میں گمنامی کا شکار ہیں۔

رضا نے افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ ان کا کام بیرونِ ملک سراہا گیا مگر پاکستان میں اردو فکشن کی اشاعت کے مواقع محدود ہیں، اکثر مصنفین کو پہلے انگریزی ترجمے کی ضرورت پڑتی ہے، تب جا کر انہیں مقامی یا عالمی سطح پر پہچان ملتی ہے۔

خواتین کی آوازیں

پینل نے ادبی ترجمے میں صنفی حرکیات (gender dynamics) پر بھی بات کی، ڈیزی راک ویل نے انکشاف کیا کہ ایک وقت تھا جب وہ صرف مرد مصنفین کا ترجمہ کرتی تھیں لیکن #MeToo تحریک کے بعد انہیں اس بات کا شعور ہوا کہ کس طرح پدرشاہی (patriarchy) بیانیے کو تشکیل دیتی ہے۔

انہوں نے کہا میں نے صرف خواتین کو اپنانا مناسب سمجھا، یعنی اب وہ صرف خواتین مصنفات کا ترجمہ کرتی ہیں تاکہ خواتین کے ذاتی اور بااختیار بیانیوں کو نمایاں کیا جا سکے۔

ڈیزی راک ویل نے زور دیا کہ خواتین کی آوازیں نہ صرف عالمی ادب میں کم نمایاں ہیں بلکہ اکثر پدرشاہی عینک سے گزری ہوئی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ترجمہ ایک طرح کا  عملِ بازیافت  (act of reclamation) بن جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب آپ عورتوں کی تصنیفات کا ترجمہ کرتے ہیں تو آپ ان کی آوازوں کو خود ان کی شرائط پر سامنے آنے کا موقع دیتے ہیں۔

حوری نورانی نے مزید کہا کہ پاکستان میں خواتین مصنفین کو شائع کرنا ہمیشہ سے ایک سیاسی مؤقف رہا ہے، جس کی اکثر قدامت پسند حلقوں کی طرف سے مزاحمت کی جاتی ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا اشاعتی ادارہ مسلسل خواتین کے تجربات کو ترجیح دیتا رہا ہے اور اسے وہ ترقی پسند سوچ کے لیے ایک لازمی قدم سمجھتی ہیں۔

ترجمہ بطور سیاست

مکمل نشست کے دوران مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ترجمہ ایک غیر جانب دار (neutral) عمل نہیں ہوتا، اس میں سیاسی وزن شامل ہوتا ہے، چاہے وہ اس بات کا انتخاب ہو کہ کن مصنفین کی آواز کو ابھارا جائے، کن کہانیوں کو سرحدوں کے پار پہنچایا جائے، یا سنسرشپ سے کیسے نمٹا جائے۔

ڈیزی راک ویل کے نزدیک ترجمے کا ہر عمل  دو دنیاؤں کے درمیان ایک مکالمہ  ہوتا ہے جبکہ سید کاشف رضا کے لیے ترجمہ  اردو کو سیکھنے اور اس کی نئی جہتوں کو دریافت کرنے کا ایک ذریعہ  ہے۔

نشست کے اختتام پر حوری نورانی نے کہا کہ مترجم، مصنف اور پبلشر سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ترجمہ شدہ ادب کو اس کی ثقافتی گہرائی کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے، قابلِ رسائی اور خالص رکھا جائے۔