دوحہ: (ویب ڈیسک) قطر نے 2036 کے اولمپک اور پیرا اولمپک گیمز کی میزبانی کیلئے باضابطہ طور پر بولی دے دی ہے، جس کے بعد خلیجی ریاست کی کھیلوں کی دنیا میں مزید آگے بڑھنے کی خواہش واضح ہوگئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق توانائی پر انحصار کرنے والا ملک قطر اپنی معیشت کو مزید متنوع بنانے کیلئے بڑے کھیلوں کے عالمی ایونٹس کی میزبانی کا خواہاں ہے، خلیج کی یہ سب سے چھوٹی اور امیر ترین ریاست ان ایونٹس کی میزبانی کا تجربہ رکھتی ہے، کیونکہ اس سے قبل وہ فیفا ورلڈ کپ 2022 کی بھی میزبانی کر چکی ہے۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی کا کہنا ہے کہ اگر قطر کو یہ میزبانی مل جاتی ہے تو یہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا پہلا ملک ہوگا جو اولمپک گیمز کی میزبانی کرے گا۔
قطر نیوز ایجنسی پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ اولمپک اور پیرا اولمپک گیمز 2036 کیلئے دی جانے والی بولی قطر کے سفر میں ایک نیا سنگ میل ہوگی، یہ بولی قطر کے اس ریکارڈ پر مبنی ہے جس میں اس نے فیفا ورلڈ کپ 2022 سمیت کئی بڑے بین الاقوامی کھیلوں کے ایونٹس کامیابی کے ساتھ منعقد کئے ہیں۔
2022 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے دوران قطر پر تنقید بھی کی گئی تھی، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا تھا کہ ورلڈ کپ منصوبوں کے دوران ہزاروں تارکین وطن مزدور جاں بحق ہوئے، تاہم قطر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف 37 مزدور ہلاک ہوئے جن میں سے 3 کی اموات کام سے متعلق حادثات میں ہوئیں۔
قطر اولمپک کمیٹی کے صدر شیخ جوعان بن حمد آل ثانی نے کہا کہ دوحہ نے کھیل کو اپنی قومی حکمت عملی کا بنیادی ستون بنایا ہے، گیمز کی میزبانی کے لیے درکار 95 فیصد سپورٹس انفراسٹرکچر پہلے ہی مکمل کیا جاچکا ہے اور ہمارے پاس ایک جامع منصوبہ موجود ہے تاکہ باقی سہولیات کو بھی مکمل کیا جا سکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب اولمپک گیمز کی میزبانی کیلئے ممالک پر لازم نہیں کہ وہ اپنی بولی کو عوامی طور پر ظاہر کریں، اولمپک گیمز روایتی طور پر ہر بار مختلف براعظم میں منعقد کئے جاتے ہیں، 2024، 2028 اور 2032 کے اولمپک گیمز بالترتیب یورپ، شمالی امریکا اور اوشیانا میں منعقد ہو رہے ہیں، جس سے 2036 کے اولمپک گیمز کے ایشیا یا افریقہ میں ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی پہلی خاتون سربراہ بننے والی کرسٹی کوونٹری کے لیے اولمپک 2036 کے میزبان ملک کا انتخاب کرنا ایک اہم منصوبہ ہوگا، جو اولمپک گیمز کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے گا۔