احساس زندہ کب ہو گا؟

Last Updated On 31 May,2018 06:13 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) کانوں میں اذان کی آواز، صبح سویرے سورج کی کرنیں، ٹھنڈی ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ ایک خوبصورت احساس پیدا کرتی ہے۔ دوسروں کے لیے احساس کا ہونا انسان کی خاصیت ہے اور اس میں اسی وقت ہی بیدار ہو جاتا ہے جب وہ ماں کی گود میں آتا ہے۔ یہ احساس ہمیں انسانیت سکھاتا ہے اور اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتا ہے۔

لیکن ہم اپنے اندر اس احساس کو دفنا بھی دیتے ہیں۔ پھر جب حوا کی بیٹی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تو احساس ہی نہیں ہوتا۔ نہ اس وقت جب حوا کی بیٹی بھوک کے واسطے اپنی عزت پھیلائے سڑک کنارے بیٹھی دیکھی۔ یہ کمی ننھی زینت کے معاملے میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ میں جب کشمیر، فلسطین اور برما میں ظلم کی انتہا دیکھتی ہوں، ان چیخوں، آنسوؤں کی التجا سنتی ہوں تب بھی اپنے اندر احساس نہیں ڈھونڈ پاتی۔

کس کس معاملے پر احساس کے ختم ہونے کی کہانی تحریر کروں۔ پھر سوچتی ہوں اس احساس کو جگانے کی کوشش کروں جو ہم اپنے اندر دفن کر چکے ہیں۔ مظلوم کے آنسو تو عرش ہلا دیتے ہیں تو پھر انسان جو مٹی سے بنایا گیا ہے، پتھر کی مانند کیوں ہو گیا ہے؟ کیوں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے؟ کیوں کشمیر، برما اور فلسطین کے لوگوں کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ دنیا کی رنگینیوں میں اتنا مگن ہونے کی وجہ سے ادھر نظر نہیں جاتی تو پھر ہم اشرف المخلوقات کیوں کہلائیں؟

ہمدردی کے دو بول بولنا اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے سمجھ لیا ہیں۔ ہونٹوں کو ایسے سی لیا گیا ہے جیسے انسان نہیں پتھر ہیں ہم۔ ہمیں اپنے اندر کے ضمیر کو جگانا ہے۔ خود اپنے اندر احساس جگانا ہے، ہمدرد بننا ہے، خوشیاں بانٹنی ہیں، لوگوں کے دکھوں کو سمیٹنا ہے۔ کیونکہ وقت تو چلتا پہیہ ہے، آج ہمارا ہے تو کل کسی اور کا۔

کیوں نہ اپنے اوپر برے وقت کے آنے سے پہلے ایک دوسرے کے احساس کو عام کر دیں تا کہ بھلائی عام ہو۔ یوں ہم خود کو انسان کہنے کے قابل رہیں ورنہ انسانوں اور حیوانوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ خوف خدا رکھنے والے دل سے سوچنا اور کسی کے درد کو اپنا درد سمجھنا شروع کریں گے تو جو انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے وہ بیدار ہونا شروع ہو جائے گی اور احساس زندہ ہو جائے گا! اس احساس کو اپنے گلی کوچوں سے لے کر ایوانوں تک پہنچانا ہے اور بے حس حکمرانوں کے دلوں میں ملک و قوم کے لیے احساس پیدا کرنا ہے۔

تحریر: مہک سہیل انجم