لاہور: (روزنامہ دنیا) مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتی ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔ معاشرے میں بہت سے لوگ نکمّے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔
تقدیر پر یقین تو ہوتا ہے مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی سوچے کہ تقدیر نے ساتھ نہیں دیا تو یہ غلط نہیں ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی ڈگر پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھوٹ سچ اور غلط ملط طریقوں سے دھوکا دیتے رہتے ہیں، اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔
حالات سے مقابلہ کرنے کے عزم یا صلاحیت کی ناکامی ہوتی ہے۔ اگر ہم ہمت سے کام لے کر حالات کا مقابلہ کریں تو اپنی تقدیر سنوار سکتے ہیں۔ اتفاقی طور پر بھی کچھ باتیں ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر ان کا بھی کوئی نہ کوئی سبب بہرحال ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور محض تقدیر کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔
تحریر: عشرت جہاں ہاشمی