لاہور: (روزنامہ دنیا) والدین، بالخصوص ملازمت کرنے والی مائیں سوچتی ہیں کہ وہ بچے کو کس عمر میں ڈے کیئر سینٹر میں ذہنی تکلیف پہنچائے بغیر چھوڑ سکتی ہیں۔ اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں بہت ساری اور باتوں کا علم ہونا چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سینٹر کا معیار کیسا ہے؟ کیا وہاں ضروری تجربہ کار سٹاف موجود ہے؟ کیا ماں یا کوئی اور قریبی رشتہ دار بچے کے ساتھ جائے گا؟ عام طور پر بچے ماحول کی تبدیلی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں، لیکن تین چار سال کے بچے کے لیے گھر چھوڑ کر فوری طور پر ڈے کیئر سینٹر کا بالکل اجنبی اپنانا ذرا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ گھر سے فوراً سینٹر جانے کی بجائے پہلے وہ کسی درمیانی جگہ پر، جہاں ماحول مکمل طور پر اجنبی نہ ہو، رہے۔ عام طور پر کچھ دنوں میں بہت زیادہ رونے اور چیخ و پکار کرنے والا بچہ بھی اس اجنبی ماحول کو قبول کر لے گا۔ مائیں یہ بھی سوچتی ہیں کہ مجبوری کی وجہ سے اپنے بچے کو چھوٹی عمر میں نگہداشت کے لیے کہیں چھوڑ دیں تو کیا اس پر کوئی طویل المدت برے اثرات تو نہیں مرتب ہوںگے۔ اس بارے میں سائنسی شواہد کی کمی ہے۔
ہر بچے پر اس قسم کے حالات کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بہر حال اگر بچے نگہداشت کے لیے زیادہ عرصے کے لیے کہیں اور رہیں تو ان کے لیے واپس خاندان میں رہنا اور اسے قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر میاں اور بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو انہیں فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کے بچے کی بہتر نگہداشت کیسے ہو گی۔
ایسے حالات میں انہیں ایک تیسرے فر د کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے رشتہ دار، آیا اور ڈے کیئر سینٹر میں انتخاب کا مسئلہ آپ کے ذاتی حالات اور نگہداشت کرنے والے کی اہلیت پر منحصر ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ روزانہ اپنے بچے کے ساتھ کم از کم کچھ گھنٹے ضرور گزاریں۔ بچے کو کسی اور کی نگہداشت میں دینے پر خود کو قصور وار ٹھہرانے اور یوں اس پر بے جا کھلونوں کی بارش کرنے اور ادھر اُدھر کی فضول کھانے پینے کی چیزیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پیار اور قریبی رفاقت سے بڑھ کر آپ اپنے بچے کو کوئی تحفہ نہیں دے سکتے۔
تحریر: ڈاکٹر ایچ ایل تان