لاہور: (روزنامہ دنیا) سوشل میڈیا نے خبروں کے حصول کے طریق کو بدل دیا ہے۔ گزشتہ برس پیو (Pew) تحقیقی مرکز کے جائزے کے مطابق دو تہائی امریکیوں نے کہا کہ وہ خبریں سوشل میڈیا سے حاصل کرتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ شاید جانتے ہیں کہ یہ دو دھاری تلوار ہے۔
بلاشبہ خبر کے مختلف ذرائع کا ہونا اچھی بات ہے، اور سوشل میڈیا سے خبریں و معلومات ٹیلی ویژن اور اخبار جیسے روایتی میڈیا کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خبروں اور معلومات کا جائزہ نہیں لیا جاتا، تحقیق یا تصدیق نہیں کی جاتی۔ اسی لیے یہ بے بنیاد اور گمراہ کن افواہوں کا سبب بنتی ہیں جو جنگل کی آگ کی طرح آن لائن پھیل جاتی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں آن لائن جھوٹی خبروں کا ایک نظام قائم ہو چکا ہے۔ یہ اطلاعات کہیں سے نقل کرتا ہے، من مرضی کے نتائج اخذ کرتا ہے اور معلومات میں جعل سازی کرتا ہے۔ اس نظام میں مختلف افراد اور تنظیمیں شامل ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد فالو کرتی ہے۔ شیئرنگ اور ایک کے بعد دوسرے کے آگے بڑھانے سے خبر کا اثر بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ خبر ان کے مخصوص تصورات سے مطابقت رکھتی ہے، اور اس کی سچائی جاننے کی کوشش نہیں کی گئی ہوتی۔ وہ عناصر جو اس قسم کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں وہ گمراہ کن خبروں کا ایک غیر مرکزی اور وسیع جال بناتے ہیں۔ انہیں دبانا روایتی میڈیا کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ایک حالیہ مقالے میں میں نے ٹویٹر پر زِکا وائرس کے بارے میں سازشی نظریات کی جانچ پڑتال کی۔
جھوٹی خبروں کی بنیاد پر یہ سازشی نظریات لاطینی امریکا میں 2015-16ء میں مقبول ہوئے جب یہ بیماری پھیلی۔ ان میں زیادہ تر الزام لگایا گیا کہ زِکا وائرس کی وجہ سے چھوٹے سر کے بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ حکومت، غیرسرکاری ادارے اور ادویات کی صنعت اصل سبب چھپانے میں مصروف ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان نظریات میں ویکسین، کیڑے مار زہر اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بانجھ مچھروں وغیرہ کو وجہ بتایا گیا تھا۔ جبکہ یہی مچھر سے پھیلنے والے زِکا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار ہیں۔ یہ صرف افواہیں نہیں بلکہ نقصان دہ اورگمراہ کن معلومات ہیں۔
(ترجمہ: رضوان عطا)