واشنگٹن: (ویب ڈسیک) چار فروری کو سرطان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او زور دے رہا ہے کہ سروائیکل کینسر کے خاتمے کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے۔ اس مرض کی روک تھام ممکن ہے جو ہر سال تین لاکھ سے زائد عورتوں کی موت کا باعث بنتا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ترقی پذیر ملکوں میں ہے۔
تایا جاتا ہے کہ اس مرض سے ہر دس میں سے نو اموات غریب اور درمیانی آمدن رکھنے والے ملکوں میں ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی وجہ پیپی لوما وائرس ہے اور جنسی رابطے کی وجہ سے اس کی منتقلی ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ سروائیکل کینسر کا علاج ممکن ہے اگر اس کی انفیکشن کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ہو اور زندگی میں کئی دوسرے امراض کی طرح روک تھام بہترین علاج ہے اور سروائیکل کینسر کے لئے اب ایک موثر ویکسین بھی دستیاب ہے۔ اس ویکسین کے ذریعے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے اگر اسے نوسے چودہ سال کی عمر والی بچیوں کو دیا جائے۔
ڈبلیو ایچ او کے ایمیونائزیشن پروگرام کے ٹیکنیکل افسر پال بلوم کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کا استعمال عموماً امیر ملکوں میں کیا جاتا ہے جبکہ افریقہ اور ایشیا میں سروائیکل کینسر سے انتہائی متاثرہ ملکوں میں اس کا استعمال بہت ہی کم ہے۔ لیکن ان کے مطابق کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
افریقہ کے ایک ملک روانڈا میں گزشتہ پانچ یا چھ برسوں میں ویکسین کی شرح نوے فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ بھوٹان میں ویکسین حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد نوے فیصد ہے۔ ملیشیا اس سلسلے میں اپنی ستانوے فیصد بچیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس طرح بعض بے حد اچھی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسین بہتر کام کر رہی ہے اور کم آمدن والے ملکوں میں اس کو پہنچایا جا سکتا ہے۔ بلوم کا کہنا ہے کہ افریقہ کے چار ملکوں ایتھوپیا، تنزانیہ، زمبابوے اور سینیگال میں اس ویکسین کو گزشتہ سال متعارف کرا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے گیارہ مزید ملکوں میں اگلے برس سے اس ویکسین کا استعمال شروع کر دیا جایئگا۔
پرنسس نوتھمبا سملیلہ ڈبلیو ایچ او میں خاندان، خواتین، بچوں اور نو عمر افراد کے شعبے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں میں سب سے بڑا مسئلہ ھنر مند افراد کی کمی ہے جو عورتوں میں سروائیکل کینسر کی جانچ اور تشخیص کر سکیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ دور افتادہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر عورتوں کے لئے ان کلینکس تک پہنچنا مشکل ہے جہاں اس بیماری کی جانچ اور علاج معالجہ ہو سکے۔ لیکن انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ایسی حکمت عملی موجود ہے جس کی مدد سے ایسے مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ سمیلیلہ کا کہنا ہے کہ ھمارے پاس ایسے کلینکس موجود ہیں جن تک موبائل فون سے رسائی ممکن ہے۔ ان میں ایسے دن مخصوص کئے گئے ہیں جہاں خواتین کال کر سکتی ہیں اور نو عمر لڑکیوں کو لا سکتی ہیں اور اس طرح ویکسین حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق ایک اور حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتیں سکولوں میں صحت کے پروگرام متعارف کرا سکتی ہیں جیسے روانڈا اور ساوتھ افریقہ میں یہ ویکسین سکولوں میں پہنچائی جاتی ہے اور متعلقہ عمر کی لڑکیوں کے لئے دستیاب ہے۔ ان لڑ کیوں کی ایک بڑی تعداد اس حکمت عملی سے مستفید ہوتی ہے۔