صدی کے آخر تک ہمالیہ کے دو تہائی گلیشیئرز پگھل جانے کا خطرہ

Last Updated On 07 February,2019 10:59 am

کھٹمنڈو: (ویب ڈیسک) رواں صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے پگھل جانے کا خطرہ ہے۔ یہ بات سائنسدانوں نے اپنی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی ہے، جو آج پیر چار فروری کو جاری کی گئی۔

نیپال میں، جہاں دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں، ملکی دارالحکومت کھٹمنڈو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے لیکن بہت طویل سائنسی مطالعے کے مطابق ہمالیہ کے وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے سن اکیس سو تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

ساتھ ہی اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے سے متعلق پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے اہداف حاصل کر بھی لیے گئے، تو بھی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ایک تہائی گلیشیئرز ناپید ہو جائیں گے۔

پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ صرف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کو ہدف بنایا گیا ہے۔

یہ رپورٹ پیر چار فروری کو کھٹمنڈو میں قائم اس بین الاقوامی مرکز نے جاری کی، جو پہاڑی خطوں کی ترقی اور حفاظت کے لیے سرگرم ہے اور مختصراﹰ ICIMOD کہلاتا ہے۔


نیپال دنیا کے ان آٹھ ممالک میں سے صف اول کا ملک ہے، جسے اپنے ہاں گلیشیئرز‍ کے پگھل جانے سے شدید ترین خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ نئی رپورٹ ہندوکش ہمالیہ (HKH) کے پہاڑی علاقے کے بارے میں تیار کی گئی ہے، جہاں مجموعی طور پر گلیشیئرز اتنے زیادہ اور بڑے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس خطے کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا ’تیسرا قطب‘ یا ’تھرڈ پول‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والا پانی قریبی پہاڑی علاقوں میں آباد 25 کروڑ (250 ملین) انسانوں اور مختلف ممالک میں ان پانیوں سے بننے والے دریاؤں کی وادیوں میں بسنے والے ایک ارب 65 کروڑ (1.65 بلین) انسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انہی گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کے دس انتہائی اہم دریائی نظاموں کو پانی ملتا ہے، جن میں دریائے گنگا، دریائے سندھ، دریائے زرد اور دریائے میکانگ جیسے بہت طویل دریائی نظام شامل ہیں۔

وادئ ہنزہ کے شمشال درے کے باسی جہان بیگ کے ٹو سر کرنے والوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی فضل علی کی طرح تین مرتبہ کے ٹو سر کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ جہان بیگ سن 2008 میں کے ٹو کی مہم کے دوران گیارہ ہلاک ہونے والوں میں دوسرے پاکستانی کوہ پیما تھے۔ تصویر میں اُن کی بیوی گل دانا اپنے شوہر کی تصویر تھامے ہوئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ دریائی نظام اتنے اہم ہیں کہ مجموعی طور پر اربوں انسان اپنے لیے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدنی کی خاطر براہ راست یا بالواسطہ طور پر انہی دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔

اس خطے میں موجود دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو بھی شامل ہیں اور ہندو کش ہمالیہ کے ان گلیشیئرز کے پگھل جانے سے اربوں انسانوں کی زندگی پر انتہائی تکلیف دہ ماحولیاتی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ رپورٹ 350 سے زائد ماہرین اور محققین نے، 185 تنظیموں اور 210 مصنفین کی مدد سے پانچ سال کے عرصے میں تیار کی، جس کا اس رپورٹ کے حتمی نتائج جاری کیے جانے سے قبل 125 غیر جانبدار مبصرین نے آزادانہ جائزہ بھی لیا