لاہور: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک اور امریکی سرچ انجن گوگل دنیا بھر میں دھاک بیٹھائے ہوئے ہیں، فیس بک کے صارفین کی تعداد اربوں میں ہے جبکہ گوگل پر بھی اربوں لوگ کسی بھی چیز کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تاہم ایک حیران کن خبر نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، رواں سال کے دوران دونوں کمپنیوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور امسال دونوں کمپنیوں کی مقبولیت میں کمی کا سلسلہ جاری رہا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مقبولیت میں کمی ان کی سروس کی وجہ سے نہیں بلکہ ملازمت کے لیے موزوں ماحول کے حوالے سے ہوئی ہے۔ امریکا میں ملازمت کے لیے بہترین 10 کمپنیوں میں فیس بُک اور گوگل شامل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیس بک نے ایک کروڑ 16 لاکھ پوسٹیں ہٹا دیں
ماہرین کی طرف سے کہا جا رہا ہے ان کی مقبولیت میں کمی کی وجہ چند سالوں کے دوران سامنے آنے والے سکینڈلز ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیس بک، گوگل انسانی حقوق کیلئے بڑا خطرہ قرار
ڈیٹا سے متعلق قوانین کی خلاف ورزیوں اور ڈیٹا کی حفاظت میں کمزوری سے متعلق سامنے آنے والے انکشافات کی وجہ سے بھی گریجویٹس کی نظر میں سال 2019ء کے دوران فیس بک اور گوگل بہترین کمپنیاں نہیں رہیں۔
ملازمت پیشہ افراد کے لیے گلاس ڈور کی جانب سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق بہترین امریکی کمپنیوں میں گوگل کا 11واں جبکہ فیس بُک کا 23واں نمبر ہے۔ مذکورہ فہرست میں 2018 کے مقابلے میں اس سال ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گوگل کے سرچ انجن میں نئے فیچر کی آزمائش شروع
ہب سپاٹ اس فہرست میں پہلی پوزیشن پر ہے اور اسے 2020 میں ملازمت اختیار کرنے کے حوالے سے بہترین کمپنی قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بین اینڈ کمپنی اور تیسرے نمبر پر ڈوکو سائن ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق خیال کیا جارہا ہے کہ گوگل اور فیس بک کی مقبولیت میں آنے والی کمی کی وجہ کمپنیوں کے ملازمین کی جانب سے اخلاقی خدشات کی وجہ سے کیے جانے والے مظاہرے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی گوگل کے 200 سے زائد ملازمین نے کمپنی کے 2 ملازمین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا تھا کہ مذکورہ افراد کو ورک پلیس پر ان کی فعال پذیری کی وجہ سے چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا جبکہ کمپنی نے اس کی وضاحت بھی نہیں دی۔ دوسری جانب گزشتہ برس 7 ویں نمبر پر رہنے والی فیس بک اس مرتبہ 23 ویں نمبر پر پہنچ گئی۔
جھوٹی خبروں کو روکنے میں ناکامی پر فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو عوام کی جانب سے اوپن لیٹر جاری کیے گئے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ فیس بک اور انسٹاگرام پر پاسورڈ اور ای میل ایڈریسز کے لیک ہونے پر اس کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔