ڈیپ فیک ٹیکنالوجی: دور جدید کا خطرناک ہتھیار

Published On 18 May,2022 11:59 am

لاہور: (ڈاکٹر سہیل اختر) آج کل پاکستان میں ڈیپ فیک وڈیوز کے بارے میں کافی بات ہو رہی ہے۔ ڈیپ فیک کی یہ ٹیکنالوجی کچھ عرصے سے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔ ڈیپ فیک ایک ایسی وڈیو ہوتی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے لوگوں کے چہروں کو بدل دیا جاتا ہے۔ اگر عام زبان میں کہا جائے تو ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی ایک شخص کے چہرے پر دوسرے شخص کا چہرہ اور آواز لگا دی جاتی ہے۔ فوٹو شاپ یا اس طرح کے ایڈیٹنگ سوفٹ ویئر بھی اگرچہ یہی کام کرتے ہیں لیکن اس میں ہم خود ایک تصویر کو ایڈٹ کرتے ہیں جبکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے سوفٹ ویئر فراہم کئے گئے ہیں جو اتنے اچھے طریقے سے کام کرتے ہیں کہ ہم اصل اور نقل میں فرق محسوس نہیں کرسکتے ۔

ڈیپ فیک وڈیوز کیسے بنتی ہیں:کسی کی ڈیپ فیک وڈیو بنانے کیلئے اس شخص کی تصاویر یا وڈیوز سوفٹ ویئر کے الگورتھم کو دی جاتی ہیں۔ اس ڈیٹا یا انفارمیشن کی بنیاد پرمصنوعی ذہانت کے الگورتھم ایک ماڈل تشکیل دیتے ہیں اور مختلف زاویوں سے ان تصاویر اور وڈیوز کا جائزہ لیتے ہیں اور ہر بار ماڈل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ ماڈل ریفائن ہوتا جاتا ہے آپ کو اصل اور نقل میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا کیونکہ یہ ماڈل صرف تصویر کو ہی نقل نہیں کرتا بلکہ آواز کی بھی نقل کرتا ہے۔ ڈیپ فیک وڈیو بنانے کیلئے اس شخص کی کم از کم پندرہ سو تصاویر یا 150 سیکنڈ کا کلپ سوفٹ ویئر کو دینا ہوتا ہے جس کے بعد یہ سوفٹ ویئراس کی شکل کا ایک ماڈل بناتا ہے اور پھر اصل اور نقل میں فرق تلاش کرتا ہے اور ہزاروں بار اس پراسس کو دھراتا ہے۔ جتنی زیادہ بار اس پراسس کو دہرایا جاتا ہے، اتنا ہی یہ ماڈل بہتر ہوتا جاتا ہے اور جب فائنل ماڈل بنتا ہے تو وہ بالکل حقیقی لگنے لگتا ہے۔ اس وقت بھی انٹر نیٹ پر بہت سی ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جن پر 15 ڈالر میں کسی بھی شخص کی ڈیپ فیک وڈیو بنوائی جا سکتی ہے۔ اگر بہت ہی زیادہ حقیقت کے قریب وڈیو بنوانی ہو تو یہ وڈیو 60 ڈالر خرچ کر کے بنوائی جا سکتی ہے۔ یہ ایسی وڈیو ہوگی جس میں اصل اور نقل کا فرق تلاش کرنا بہت مشکل ہوگا۔

نقصانات:اس ٹیکنالوجی کی مدد سے چہرے بدل دینا اور نئی وائس کلپس بنانا جہاں ہمیں تخلیقی آزادی دیتا ہے وہیں اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ حال ہی میں بارک اوباما کی کچھ ایسی وڈیوز بھی منظر عام پر آئیں جن میں وہ ناشائستہ جملوں کا استعمال کرتے نظر آئے جبکہ حقیقت میں وہ ایک ڈیپ فیک وڈیو تھی۔ اسی طرح انڈین صحافی رعنا ایوب کی بھی ایک ڈیپ فیک وڈیو بنائی گئی جس کے بعد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اور وہ کئی مہینوں تک اپنے کمرے میں قید رہیں۔ ڈیپ فیک وڈیوز کو آجکل ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ہتھیار کا تازہ ترین استعمال روس اور یوکرین کی جنگ میں کیا گیا ہے۔ جہاں پر پہلے روس کے صدر کی ڈیپ فیک وڈیو جاری کی گئی جس کے بعد یوکرین کے صدر کی ڈیپ فیک وڈیو جاری کی گئی جس میں انہوں نے ہتھیار ڈالنے کی بات کی اور شکست تسلیم کر لی ۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کے بعد سوشل میڈیا کی انتظامیہ نے اسے وہاں سے ہٹا دیا لیکن عام عوام کو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ ایک ڈیپ فیک ویڈیو تھی۔

ڈیپ فیک وڈیوز کی شناخت:اگر ڈیپ فیک وڈیو ایک کم تجربہ کار شخص بنائے گا تو اس کی شناخت کرنا آسان ہے لیکن اگر یہ وڈیو ایک ماہر اور تجربہ کار شخص بنائے گا تو اس کی شناخت کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ یہ وڈیو مشین لرننگ سے بنائی جاتی ہے ۔اس لئے یہ وڈیو شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر کو بھی چکمہ دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزارت داخلہ کی زیر نگرانی ہونے والی تحقیق میں ڈیپ فیک وڈیوز کو شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر کی تیاری جاری ہے۔ماہرین کے خیال میں ڈیپ فیک وڈیوز کی شناخت کرنا ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے۔ ممکن ہے جب تک اس بات کا تعین ہو کہ وائرل وڈیو اصلی ہے یا ڈیپ فیک ہے اس وقت تک نقصان ہو چکا ہو ۔ذرا سوچئے کہ کسی ملک کے وزیر اعظم کی ڈیپ فیک وڈیو بنا دے جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ ان کی فوج ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا ہمسایہ ملک اس وڈیو کی اصلیت جاننے تک انتظار کرے گا یا ملک کی حفاظت کیلئے فوراً جوابی کارروائی کرے گا۔

ڈیپ فیک وڈیوز کیخلاف قوانین:ڈیپ فیک کیخلاف باقاعدہ قوانین کی غیر موجودگی میں موجودہ قوانین کی رو سے ہی ڈیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں2016ء میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی منظوری دی گئی جو مختلف الیکٹرانک جرائم کیلئے لیگل فریم ورک، انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کا طریقہ واضح کرتا ہے۔ امریکہ میں فیڈرل لیول پر تو کوئی قانون نہیں ہے لیکن ورجینیا، ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ڈیپ فیک کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے موجودہ قوانین میں کچھ اضافہ ضرور کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں ڈیپ فیک غیر قانونی نہیں بلکہ ماہرین کے مطابق یہ گرے ایریا ہے۔ اس کیلئے ڈیفیمیشن کا قانون اور جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کی بعض دفعات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویسی اور سائبر اینٹی ہراسمنٹ لاز سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔یورپی یونین نے جنوری میں ڈیجیٹل سروسز ایکٹ پاس کیا ہے مگر اس پر عمل درآمد 2023ء سے ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر قانون بن بھی جاتا ہے تو بھی ڈیپ فیک بننا ختم نہیں ہو سکتا۔ اب اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ انٹر نیٹ پر وائرل ہونے والی ہر وڈیو حقیقی نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر سہیل شعبہ طب سے وابستہ ہیں، صحت عامہ سمیت سماجی اور سائنسی موضوعات پر ان کے کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں
 

Advertisement