کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھنے لگا، نئی کہکشائیں اور سیارہ دریافت

Published On 07 May,2022 09:15 am

لاہور: (ڈاکٹر سہیل اختر) ماہرین فلکیات عرصہ دراز سے اس کھوج میں لگے ہیں کہ ابتدائی کہکشائیں اور سیارے کب اور کیسے معرض و جود میں آئے تھے؟ہماری کائنات کی ابتدا.8 13 ارب سال پہلے ہوئی، شروع میں کائنات کافی گرم تھی۔اس میں کہکشائیں موجود تھیں نہ سیارے۔

ہبل ٹیلی سکوپ نے خلا میں پہنچنے کے بعد جو تصاویر بھیجیں ان سے ماہرین فلکیات نے ایسی کہکشائیں دریافت کیں جو بگ بین سے صرف چالیس کروڑ سال بعد کی تھیں اور ان کی روشنی 13.4 ارب سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ ہبل ٹیلی سکوپ کی بدولت ماہرین فلکیات نے اب تک کروڑوں کہکشاؤں کا پتا لگایا ہے۔
کائنات پچھلے.8 13 ارب سالوں میں بدلتی رہی ہے، اس کا پتا کیسے لگایا جائے؟ اس کیلئے ضروری ہے کہ یا تو ماضی میں جایا جائے یعنی ٹائم ٹریول کیا جائے یا پھر ماضی میں جھانکنے کیلئے ٹیلی سکوپ کی مدد لی جائے۔ ماہرین نے ایسا ہی کیا، ہبل ٹیلی سکوپ اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ اسی کا م کیلئے لانچ کی گئیں۔ یہ ٹیلی سکوپس ٹائم مشین کا کام بھی کرتی ہیں۔ یعنی جتنا ہم دور دیکھ رہے ہوتے ہیں، اتنا ہی ہم پیچھے دیکھ رہے ہوتے ہیں یا ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ماضی میں دیکھنے کا تعلق روشنی کی رفتار سے ہے۔مثال کے طور پر سورج ہم سے تقریباً پندرہ لاکھ کلومیٹر دور ہے ۔ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اوراسے زمین تک پہنچے میں تقریباً آٹھ منٹ لگتے ہیں۔ سورج کی روشنی جس وقت زمین پر پہنچتی ہے اس وقت سورج ہمارے لئے آٹھ منٹ پرانا ہو چکا ہوتا ہے۔

فرض کریں کہ اگر سورج کی روشنی اچانک ختم ہو جائے تو ہمیں آٹھ منٹ تک اس کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ ہمارے سورج سے جو سب سے قریبی ستارہ ہے اس کا نام ’’پرو کیسما سنٹوری‘‘ ہے۔ یہ ہم سے اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی کو زمین تک پہنچے میں تقریباً چار سال لگتے ہیں۔جب بھی ہم ’’پروکیسما سینٹوری‘‘ کو دیکھتے ہیں تو ہم اسے ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ چار سال پہلے تھا۔ ایسے ہی جتنا ہم دور دیکھیں گے اتنا ہمیں پتا چلے گا کہ ماضی میں کائنات کیسی تھی۔’’پرو کیسما سینٹوری‘‘ ہم سے چار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس لئے ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ان سالوں میں کائنات میں زیادہ تبدیلی آئی ہوگی۔
ہمارے قریب ترین جو کہکشائیں موجودہیں وہ کچھ ملین نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ماہرین فلکیات کا یہی خیال ہے کہ ہماری کائنات اس عرصہ میں بھی بہت زیادہ نہیں بدلی ہوگی۔ اگر کسی ایسی کہکشاں یا ستارے کو دیکھا جائے جو ہم سے ایک ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس کی روشنی ہم تک پہنچنے میں ایک ارب سال لگے ہیں۔ جب ہم ان کہکشاؤں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم انہیں ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے ہماری کائنات ایک ارب سال پہلے تھی۔ اس سے ہم سٹڈی کر سکتے ہیں کہ کائنات میں کئی ارب سال پہلے کیا حالات تھے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کائنات کس طرح سے بنی۔ ہمیں پتا ہے کہ ہماری کائنات 13.8 ارب سال پہلے بنی تھی، اس لئے ہم بگ بین کو براہ راست تو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس میں کچھ روکاوٹیں ہیں۔

ماہرین فلکیات کے مطابق ان کہکشاؤں اور ستاروں کو دیکھا جا سکتا ہے جو اربوں سال پہلے بنی تھیں۔ اگر ہم اتنی دور ایسی کہکشاؤں یا سیاروں کو دیکھ سکیں جن کی روشنی ہم تک پہنچے میں 13 ارب سال لگے ہوں تو ہم ایسے ابجیکٹ کو دیکھ سکتے ہیں جو ہماری کائنات کے شروعات میں تھے۔ اگر ہم ان ابجیکٹ کو دیکھ پائیں تو ہم بتا سکیں گے کہ 13 ارب سال پہلے کائنات کے حالات کس طرح کے تھے۔ ماہرین فلکیات کافی عرصہ سے اس قسم کی کہکشاؤں اور سیاروں کو تلاش کر رہے تھے۔یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ جتنی دور کی چیز کو ہم دیکھیں گے وہ بہت مد ہم نظر آئے گی یا اس کی روشنی کم ہوگی۔

ابھی حال ہی میں سب سے دور جس کہکشاں کا پتا لگایا گیا ہے اس کا نام ’’جی این زیڈ 11‘‘ ہے۔ اس کہکشاں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً 13.4 ارب سال لگے ہیں یعنی یہ ہم سے 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔جب اس کہکشاں کی روشنی چلی تھی اس وقت ہماری کہکشاں صرف 420 ملین سال پرانی تھی۔ ’’جی این زیڈ ٹو‘‘ کا ریکارڈ اس سال اپریل میں ٹوٹ گیا جب ماہرین فلکیات نے ہبل ٹیلی سکوپ کی بھیجی گئی تصویروں میں دو نئی کہکشاؤں کو دریافت کیا ان کا نام ’’ایچ ڈی ون‘‘اور ایچ ڈی ٹو‘‘ہے۔’’ ایچ ڈی ون‘‘کہکشاں اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی 13.5 ارب سال پہلے چلی تھی یعنی اس وقت ہماری کائنات صرف 330 ملین سال پرانی تھی جبکہ ’’جی این زیڈٹو‘‘اس سے تقریباً 90 ملین سال آگے تھی۔

ان چیزوں سے ہمیں یہ پتہ چل رہا ہے کہ جو پہلی کہکشائیں تھیں وہ شائد دو سو سے تین سو ملین سال بعد بنیں ابھی تک ماہرین فلکیات کو جو تصاویر ملی ہیں وہ ہبل ٹیلی سکوپ یا دیگر ٹیلی سکوپ کی مدد سے ملی ہیں۔ پچھلے سال خلا میں بھیجی جانے والی ’’جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ کو خاص طور پر ایسی کہکشاؤں کی تلاش کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جو بہت پرانی ہیں۔

خیال ہے کہ ’’جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ تقریباً دس ہزار ایسی کہکشاؤں کا پتا لگائے گی جو ہماری کائنات کی شروعات کی پہلی کہکشائیں ہیں۔ انفرادی طور پر کسی ایک ستارے کو بہت دور سے دیکھنا کافی مشکل ہوگا لیکن حال ہی میں ماہرین فلکیات نے اتفاقیہ طور پر ایک ایسا ستارہ دریافت کیا ہے جس کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12.9 ارب سال لگے ہیں۔ اس وقت ہماری کائنات صرف 900 ملین سال پرانی تھی۔ اس ستارے کو’’ ہبل ٹیلی سکوپ‘‘ نے دریافت کیا۔ ماہرین فلکیات نے اس ستارے کو’’ ایر نیڈل‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ ستارہ ہمارے سورج سے کم از کم پچاس گنا زیادہ بڑا ہے۔ ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ فرسٹ جنریشن ستارہ نہیں ہے بلکہ یہ پہلے ستاروں کے فوراً بعد بنا تھا۔ جبکہ فرسٹ جنریشن سٹار کائنات کے دو سے تین ملین سال میں بنے تھے۔’’جیمز ویب ٹیلی سکوپ‘‘ مستقبل میں اس ستارے کا بھی مشاہدہ کرے گی جس کے بعد ہم یہ بتا سکیں گے کہ اس ستارے کی عمر کیا ہے۔ اس کی کمپوزیشن کیا ہے اور اس کے بارے میں کافی کچھ جان پائیں گے۔ اْمید کی جا رہی ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ، ہبل کے مشن کو کافی آگے لیکر جائے گی اور کائنات کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائے گی۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔

ڈاکٹر سہیل لائف سٹائل ڈزینرز کے ماہر ہیں، صحت عامہ کے متعلق ان کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
 

Advertisement