لاہور: (دنیا نیوز) بعض عدالتوں نے مجرموں کو ایسی سزائیں دیں کہ نہ صرف لوگ حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے بلکہ مجرم بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔
ہر ملک کا اپنا عدالتی نظام ہے اور مروجہ قوانین کے مطابق وہاں مجرموں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے سزا کا تعلق جرم کی نوعیت سے ہوتا ہے اور قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہیں لیکن بعض عدالتوں نے مجرموں کو ایسی سزائیں دیں کہ نہ صرف لوگ حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے بلکہ مجرم بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ آج بھی جب ان سزاؤں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ چہرے پر مسکراہٹ بھی آ جاتی ہے۔
برطانیہ میں 2 بچوں نے ایئر گن سے 2 ایسے پرندوں کا شکار کیا جس کی قانونی طور پر ممانعت کی گئی تھی۔ 10 برس کے ان دونوں بچوں کو بچوں کی عدالت نے یہ سزا سنائی کہ وہ ان بچوں کے نام یاد کریں جن کے شکار کی ممانعت کی گئی ہے۔
یہ ایک عجیب اور انوکھی سزا تھی، لیکن بہرحال یہ عدالت کا فیصلہ تھا۔ دونوں بچوں کو ان پرندوں کے نام یاد کرنا پڑے۔ عدالت کے حکم کی تعمیل کے بعد ان کی جان چھوٹ گئی۔
اس عدالتی فیصلے کو برطانوی عوام کی اکثریت نے پسند کیا۔ ان کی رائے میں ان کم سن مجرموں‘‘ کو ایسی ہی سزا ملنی چاہئے تھی۔ تو اس سزا کو برطانوی عدالتی تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔
اب ایک اور انوکھی سزا کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اس عمر کے 2 امریکی بچے 6 ماہ تک سکول سے غائب رہے۔ وہ اپنی اس طویل غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بھی نہ پیش کر سکے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ جب ان کے والدین سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا۔ عدالت سوچ میں پڑ گئی کہ ان بچوں کو کیا سزا دی جائے۔
آخر کار ان کیلئے یہ سزا تجویز کی گئی کہ یہ دونوں بچے اپنی سالانہ چھٹیاں سکول میں گزاریں گے۔ یہ سزا ان بچوں کیلئے بالکل غیر متوقع تھی۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں جرمانے کی سزا دی جائے گی اور جرمانے کی رقم ان کے والدین فوری طور پر ادا کر دیں گے۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اس سزا کا حکم واپس لے لیکن عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔ یہ انوکھی سزا بھی اب امریکی عدالت کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
تیسری انوکھی عدالتی سزا ملاحظہ کیجئے۔ آسٹریلیا کی ایک عدالت کے مجسٹریٹ نے ایک ڈرائیور کو سزا سنائی اسے زبردست عوامی پذیرائی ملی۔ ڈرائیور نے اس وقت سخت لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جب اس نے اپنی گاڑی ایک فٹ پاتھ پر چڑھا دی جس سے کئی لوگ زخمی ہوگئے۔
مجسٹریٹ نے جب ڈرائیور سے پوچھا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی اور کیا وہ شرمندگی محسوس نہیں کر رہا۔ ڈرائیور کا جواب انتہائی حیران کن اور افسوسناک تھا۔ اس نے کہا کہ ایسا اتفاقاً ہوا لوگوں کو خود احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر وہ فٹ پاتھوں پر اتنی لاپرواہی سے کیوں چلتے ہیں۔ ڈرائیور کے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھ کر مجسٹریٹ کو افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔
اس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ ایک بے حس شخص ہے جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ڈرائیور کو یہ سزا دی گئی کہ وہ 6 ماہ تک ہر شام کو ہسپتال جائے اور وہاں ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے لوگوں کی مرہم پٹی کرے۔
اس پر ڈرائیور کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ وہ تو یہ توقع کر رہا تھا کہ اسے کچھ عرصے کیلئے جیل بھیج دیا جائے گا یا بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے گا۔ اس نے بہت واویلا کیا لیکن اس کی سزا برقرار رکھی گئی۔ اس سزا کا اصل سبب ڈرائیور کی غیر سنجیدگی اور بے حسی تھی۔
عدالت کی طرف سے انوکھی سزا دینے کا ایک اور واقعہ کیلی فورنیا (امریکہ) میں پیش کیا جہاں ایک خاتون نے جوس پینے کے بعد چلتی کار سے اس بے احتیاطی سے خالی ڈبہ باہر پھینکا کہ ایک موٹر سائیکل سوار پولیس والے نے بڑی مشکل سے جان بچائی ورنہ اس ڈبے کی وجہ سے وہ حادثے کا شکار ہوسکتا تھا۔ جج نے اس خاتون کو یہ سزا دی کہ وہ سڑک پر پورے ایک میل تک بکھرے ہوئے خالی ڈبے جمع کرے۔ اس پر اس عورت کی سٹی گم ہوگئی وہ پورے ایک میل تک بکھرے ہوئے خالی ڈبے اکٹھی کرتی رہی اور وہ بے حال ہوگئی۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ ان عدالتی فیصلوں کو عوام کی طرف سے بہت پذیرائی ملی اور کسی حلقے کی طرف سے ان فیصلوں پر تنقید نہیں کی گئی۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں اور ملک کے وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ عوام اگر شعور کی دولت سے مالا مال ہوں تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ایسے معاشروں میں کم لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو ناپسندیدہ حرکات میں ملوث ہوتے ہیں لیکن وہ قانون سے نہیں بچ سکتے۔ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے کی روایت بھی ان ملکوں میں موجود ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے۔