لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی مشہور زمانہ ’’رائل بوٹینیکل گارڈنز‘‘ المعروف ’’کیو گارڈنز‘‘ کے گوشے میں بظاہر معمولی دکھائی دینے والا درخت لگا ہوا ہے مگر اسکی داستان کسی دکھی انسان سے بھی زیادہ افسردہ کرنے والی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پام ٹری کی ایک نوع ’’اینسیفالارٹوس ووڈیائی‘‘ (Encephalartos woodii) سے تعلق رکھنے والا یہ درخت، پوری دنیا میں اپنی قسم کا اکیلا اور آخری پودا باقی رہ گیا ہے جو پچھلے سو سال سے کیو گارڈنز میں موجود ہے۔
اعلی نسل کے پودوں میں نر اور مادہ پودے الگ الگ ہوتے ہیں اور مذکورہ پام ٹری اپنی قسم کا ’’نر درخت‘‘ ہے جسے اپنی نسل درست طور پر آگے بڑھانے کےلیے اپنی ہی نوع کے ایک ’’مادہ درخت‘‘ کی ضرورت ہے جسکی تلاش پچھلے 100 سال سے جاری ہے لیکن اب تک ماہرین کو اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔
اسے 1895 میں برطانوی ماہرِ نباتیات جون میڈلے ووڈ نے جنوبی افریقہ کے علاقے زولولینڈ میں ایک پہاڑی مقام سے دریافت کیا تھا۔ اپنے عجیب و غریب تنے اور چھتری کے محراب نما پھیلاؤ کی وجہ سے یہ درخت سب سے الگ اور منفرد نظر آرہا تھا۔ جون میڈلے نے اس درخت کے تنے کا کچھ حصہ کاٹ کر برطانیہ بھجوا دیا جسے کیو گارڈن میں بطور قلم لگایا گیا جو کچھ عرصے بعد ہی تناور درخت میں تبدیل ہوگئی۔
ماہرین پر انکشاف ہوا کہ یہ ’’نر درخت‘‘ ہے جسے اپنی نسل بڑھانے کےلیے ’’اصل مادہ‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ 125 سال کے دوران جنوبی افریقہ میں لگا ہوا درخت بھی موسم کی نذر ہوگیا جس کے بعد اب صرف یہی ایک نمونہ باقی رہ گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق خوش قسمتی سے انسانوں کے برعکس، بعض پودوں اور درختوں کی قدرتی عمر سیکڑوں اور ہزاروں سال میں ہوتی ہے۔ یہ پام ٹری بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب تک مختلف تکنیکوں سے اس درخت کے ’’بچے‘‘ ضرور تیار کیے گئے ہیں لیکن وہ اصل درخت سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔
ماہرین کے مطابق حقیقی بچوں کےلیے ضروری ہے کہ نر درخت کے قریب، اسی نوع کی مادہ درخت موجود ہو؛ جو ابھی تک نہیں مل سکی۔ یعنی جب تک اس درخت کی ’’دلہن‘‘ نہیں مل جاتی، یہ دنیا کا سب سے اکیلا پودا ہی رہے گا۔