لاہور: (سپیشل فیچر) پاستا اور میکرونی کا استعمال پورے یورپ میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے لیکن خصوصاً اٹلی میں ان کا استعمال زیادہ ہے اور اطالوی دسترخوان ان کے بغیر نہیں سجتے۔
یہ بات مذاقاً کہی جاتی ہے کہ پاستا اور میکرونی اطالوی عوام کے ڈی این اے میں شامل ہو گئے ہیں یعنی ان کے بغیر اطالوی غذا مکمل نہیں ہوتی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کس نے پکے ہوئے ٹماٹروں کو ایسے اچھالا کہ وہ پاستا میں جا گرے اور اس کا حصہ بن گئے کیونکہ اٹلی میں ٹماٹروں کے بغیر پاستا کسی کے من کو نہیں بھاتا۔ میکرونی میں بھی ان کا استعمال کافی زیادہ کیا جاتا ہے۔
آپ کویاد آرہا ہوگا کہ رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد ڈارک ایجز کے دوران پاستا کا ستعمال ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس کی درست تاریخ کو جاننا ذرا مشکل ہے۔ یقینی طور پر اس وقت کی گھریلو خواتین سوپ کے پین میں اس قسم کی کچھ چیزیں ڈال دیتی تھیں اور مختلف قسم کے اناج جیسے باجرہ، جو اور رائی بھی استعمال کرتی تھیں مگر پاستا کا آج جیسی شکل میں استعمال کب شروع ہوا؟یہ جاننے کے لئے کچھ صدیوں پیچھے جانا پڑے گا۔ جب ایک عرب بحری جہاز ایک سبز خلیجی ساحل پر اترا۔اسی جہاز میںایسی کچھ چیزیں تھیں جنہیں پاستا اور میکرونی میں استعمال کیا گیا۔
آئیے ہم اس بیان کو بڑے عرب جغرافیہ دان الفریسی پر چھوڑ دیں، جنہوں نے 1154 میں اپنی کتاب لبرو دی رگجریو ‘‘میں لکھا تھا: سسلی میں ایک شہر ہے جس کا نام ترابیا ہے ، جو سال بھر پانی سے چلنے والی چکیوں سے مالا مال ہے۔ اس قصبے میں وہ ڈور کی شکل میں آٹے سے کھانا بناتے ہیں۔ کافی مقدار میں کلابریا کے شہر ، جن میں مسلمان اور عیسائی بھی رہتے ہیں، کی جانب برآمد بھی کیا جاتا ہے‘‘۔
لہٰذا اس وقت پاستا اور میکرونی بنانے کی صنعت‘‘ وہاں قائم ہو چکی تھی۔ بہت ساری مشینیں ہوں گی جن پر بنائی جانے والی یہ غذائیں لکڑی کے ڈرموں میں بھر کر دنیا بھر میں برآمد کی جاتی تھیں۔
پہلی تحریری دستاویزات کے ساتھ پہلے ریکارڈ آتے ہیں۔ 13 ویں صدی کے دوران تمام اٹلی میں پاستا کا وسیع استعمال ہو رہا تھا۔ گھروں میں بنائے جانے والے پاستا کی مختلف شکلیں ہوتی تھیں۔ انگوینی ، ایک بڑا آدمی کے ذریعہ یہ اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آیا تھا۔
اس کی دیکھا دیکھی یہ پورے علاقے کی کوزین کا حصہ بن گیا۔ یہاںسے پاستا نئی شکل اختیار کر کے سسلی پہنچا ۔یہ شکل آج کی ان غذائوں سے ملتی جلتی ہے۔ ہسپانوی تسلط کے ساتھ ساتھ ان کا استعمال دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگا۔ جلد ہی یہ غذائیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ہر گھرکا باورچی خانہ پاستا بنانے کا مرکز بن گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر شہر میں پاستا بنانے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ عام طور پر گھریلو خواتین کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے چار دیواری کے اندر ہی ان میں استعمال ہونے والی چیزیں بنانے کی مشینیں لگا دی گئیں ، یہ چھوٹی اور لمبی شکلوں میں تیار کیا جاتا تھا۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ میکرونی اور پاستا کا کوئی ایک موجد نہیں ،یقینی طور پر ان جادوئی کشش رکھنے والی غذائوں کا موجد گمنام آدمی ہے۔ یہ بتانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ ان غذائوں نے اطالوی ڈی این اے کا حصہ بننے کے لئے کیسے باورچی خانوں میں گرفت کیسے حاصل کی۔
تحریر: عمر گاکھڑی