شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ جسے مغربی انجینئرز نہ بنا سکے

Published On 29 June,2021 09:11 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) پاکستان اور چین کے درمیان لازوال دوستی ہے اور اس دوستی کی ایک مثال شاہراہ قراقرم ہے، اسے دوستی کی شاہراہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ ہے، کہیں دلکش تو کہیں پراسرار، کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی، کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس۔

شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا اور تکمیل 1979ء میں ہوئی۔ اس کی کُل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جس کا 887 کلومیٹر حصہ پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔

موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اس کی تکمیل تک 3 کروڑ میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔

شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں تھاکوٹ تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔

تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے، پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے۔

اس کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو کہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیامیر کا ایک اہم علاقہ ہے، اس کو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سرٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔

چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پل آجاتا ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں سے کورونا سے قبل فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی تھیں۔

رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے۔ جگلوٹ سے استور، دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔

جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔

جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی، سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر، اشکومن، غذر اور شندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔

گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپ کو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔

یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔   پاسو کونز‘‘اس بات کی بہترین مثال ہے۔

ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں، گلیشیئرز، آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی، التر، بتورہ، کنیانگ کش، دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔

عطا آباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔

سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔ سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد، دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔

خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے، اسی بنا پر اس کو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔

خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں، برفانی چیتے، مارموٹ، ریچھ، یاک، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔

اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔ اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے اور بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی بہتات، آبشاریں، چراگاہیں اور گلیشیئرز سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ناصرف آپ کا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل ودماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ پاک چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے۔

تحریر: طیب رضا عابدی
 

Advertisement