مون سون سسٹم کیسے بنتا ہے؟

Published On 11 July,2021 05:17 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مون سون کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر اس کا مطلب زمین اورسمندر پر گرمی کے ساتھ فضا میں تبدیلی لیا جاتا ہے ۔انگریزی زبان میں یہ لفظ سب سے پہلے برصغیر میں استعمال کیا گیا۔

دنیا کے مون سون سسٹم سالانہ موسم گرما اور موسم سرما کی ترتیب کے مابین چکر لگاتے رہتے ہیں۔ موسم برسات اور گرمی کے آجانے سے مون سون کی اصطلاح بھی کافی استعمال ہوتی ہے۔ مون سون کی بارشیں جنوب، جنوب مشرق اور مشرقی ایشیا، شمالی آسٹریلیا ، مغربی وسطی افریقہ اور شمالی و جنوبی امریکہ کے کچھ گرم علاقوں کو متاثر کرتی ہیں۔

سردیوں میں گردش، ٹھنڈی زمین سے گرم سمندر تک ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کچھ علاقوں میں سردیوں کے مون سون کے دوران بارش بھی ہوتی ہے۔

ہوا کا اصول ہے کہ زیادہ دباؤ سے کم دباؤ کی طرف چلتی ہے، اس لئے یہ جنوب میں موجود سمندر سے شمال کی طرف چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ سمندر پر اس سیزن میں چونکہ سورج کی روشنی عمودی پڑتی ہے جس سے سطح سمندر کی ہوا گرم ہو جاتی ہے۔

عمل تبخیر بڑے پیمانے پر ہوتا ہے ، اس لئے ساحل پر پہنچنے والی ہوائیں نمی سے بھرپور ہوتی ہیں۔ یہ مزید شمال کی طرف چلی جاتی ہیں جس سے مون سون کو پیش قدمی میں معاونت ملتی ہے۔نمی سے لدی ہوئی یہ ہوائیں میدانی علاقوں میں پہنچتی ہیں تو شمال میں موجود دیوار ہمالیہ ان کو روک لیتی ہے ، نم آلود ہوائوں کی بلندی میں مزید اضافہ ہوجاتاہے، بلندی پر سرد موسم سے عمل تکثیف شرو ع ہوجاتا ہے اور بادل بنتے ہیں جو مون سون کا باعث بنتے ہیں۔

ایشیاء میں موسم سرما کے مون سون کا اصل ڈرائیور ہائی پریشر زون ہے جو منگولیا اور شمال مغربی چین میں نومبر اور مارچ کے درمیان بڑھتے ہیں اور براعظم کے بیشتر حصوں میں ٹھنڈی ، خشک شمال مشرقی ہواؤں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ لیکن سردیوں کی بارش بعض علاقوں مثلاً جنوبی ہندوستان کے مشرقی ساحل ، سری لنکا ، انڈونیشیا اور ملائشیا میں پڑتی ہے ۔موسم سرما میں مون سون کی ہوائیں مشرقی ایشیاء میں غیر معمولی کم درجہ حرارت کا سبب بنتی ہیں۔ اس کا اثر ایشیاء میں سب سے نمایاں ہے۔ لیکن مون سون دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی ہوتا ہے۔ شمالی امریکہ ، مغربی میکسیکو اور ایریزونا کے کچھ حصوں اور کچھ ہمسایہ ریاستوں میں موسم گرما میں مون سون کی بارش ہوتی ہے۔

بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مون سون کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر اس کا مطلب زمین اورسمندر پر گرمی کے ساتھ فضا میں تبدیلی لیا جاتا ہے ۔انگریزی زبان میں یہ لفظ سب سے پہلے برصغیر میں استعمال کیا گیا۔اس اصطلاح کا مفہوم خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے اٹھنے والی ہوا تھی جو خطے میں بارش کا باعث بنتی ہے۔

اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ عربی کے لفظ موسم Mawsim سے نکلا ہے۔ انگریزوں نے شاید اس کو پرتگالی کے لفظ مونساؤ monsao سے کشید کیا ہے۔ مونساؤ غالباً   ولندیزی کے مونس سوئن monessoen‘‘ سے آیا۔ اور ولندیزیوں نے شاید اس کو قدیم تامل زبان کے لفظ سے لیا ہے۔

مون یعنی چاند یعنی مہینہ سے لیا گیا جبکہ سوئن تامل زبان میں بہنے والی چیز کو کہا جاتا ہے۔مجموعی طور پر مون سون ہوائوں، بادلوں اور بارشوں کا ایک سلسلہ ہے اور یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیا،جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔

بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بنتے ہیں، یہ بخارات بادلوں کی شکل میں مشرق کا رخ کرتے ہیں اور جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں۔اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں،ان کا کچھ حصہ بھارت پر برستا ہوا کوہ ہمالیہ سے ٹکراتا ہے ، جبکہ بادلوں کا کچھ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے۔جولائی کے قریب مون سون کے بادل پاکستان پہنچتے ہیں جسے ساون کی جھڑی کہتے ہیں۔

پنجاب کے بالائی، شمالی بلوچستان اور کشمیر میں معمول سے زائد بارشیں ہوتی ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے میدانی علاقوں میں اربن فلڈنگ نظر انداز نہیں کی جاسکتی جب کہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ رہتا ہے۔ شمالی علاقوں میں معمول سے زائد درجہ حرارت کے باعث برف پگھلنے کا امکان رہتا ہے۔پہاڑوں سے برف پگھلنے کے باعث بالائی انڈس بیسن میں پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے تاہم بارشوں کے باعث پاور سیکٹر اور زراعت کے لیے پانی کافی مقدار میں جمع ہوجاتا ہے۔

مون سون نے برصغیر میں مغل بادشاہوں کو بھی بہت متاثر کیا۔ شہنشاہ بابر اور ہمایوں ساون میں جام پر جام لٹاتے تھے۔شہنشاہ اکبر کو مون سون کا موسم بے حد پسند تھا۔وہ مون سون دریائے جمنا میں کھڑی پرتعیش کشتیوں میں گزارتا۔شاہجہان ممتاز محل کے ساتھ بیٹھ کر بارش کا نظارہ کرتا تھا۔

انڈیا میں مون سون کی بارشیں مغل بادشاہ بابر کے لئے انتہائی پر مسرت اور لطف اندوز ہونے کاباعث ہوتی تھیں۔ بابر ہندوستان کی گرمی اور گرم مٹی سے اٹی ہواؤ ں سے ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔یہی حال اس کے بیٹے ہمایوں کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے محلات میں انتہائی پرتعیش حمام تعمیر کروائے تھے جہاں یہ ہندوستان کی شدید گرمی اور حبس سے نجات پانے کے لئے کافی وقت گزارتے تھے۔

ایسے میں جب خلیج بنگال سے آنے والے پانی سے بوجھل سیاہ بادل اپنی نم ہواؤ ں سے ہر سو مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلا دیتے اور پھر بارش کی تیز دھاریں ہر طرف جل تھل کردیتیں تو یہ وقت مغلوں کے لئے سکون کا پیغام لاتا۔بابر کا تعلق کیونکہ افغانستان کی ٹھنڈی وادی سے تھااس لئے اس کے لئے ہندوستان میں پہلی بارش ایک انتہائی خوشگوار تجربہ تھا۔

بارشوں کا پورا موسم بابر اکثر آرام باغ میں گزارتا تھا۔اس کا چہارباغ مون سون کے موسم میں ایسا سرسبز و شاداب ہو جاتا تھا کہ گویا کسی جادوگر نے اس پر کوئی طلسم پھونک دیا ہو۔ بھانت بھانت کے پودے اور جھاڑیاں دنوں میں پورے باغ کو ہریالی سے بھر دیتے تھے۔ یہ بابر کے لئے دریائے جمنا میں تیراکی اور پھر چہار باغ میں آرام کا موسم ہوتا تھا۔ وہ اس موسم کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ہمایوں بھی برسات کے موسم سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوتا تھا کیونکہ اس کا بچپن اور جوانی بھی افغانستان میں گزری تھی لیکن اس موسم میں آنے والا شدید سیلاب اس کے لئے بڑا پریشان کن ہوتا تھا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے سلطنت کے انتظامی امور سنبھالنے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ یہ وقت ہمایوں کے لئے بڑا تشویش کن ہوتا تھاکیونکہ ابھی مغل سلطنت نوزائیدہ تھی اور ہمایوں ابھی تک اپنے باپ کی قائم کی گئی مغل سلطنت پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لئے تگ و دو کررہا تھا۔ مغلوں کی پکنک اس وقت تک جاری رہتی جب تک دریائے جمنا بارشوں کے پانی سے بپھر کر سیلاب کی صورت نہ اختیار کرلیتا تھا۔تقریباً سارے مغل شہزادے مون سون کے دوران تیراکی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر بھی اس موسم میں تیراکی کرتے تھے۔بہادر شاہ ظفر اپنا ساون مہراؤلی میں گزارتے تھے جہاں ہر درخت کے ساتھ ایک جھولا ہوتا اور شہزادیاں ملکائیں اور باندیاں جھولوں کی لمبی لمبی پینگیں بھرتیں۔آم، نیم اور جامن کے گھنے پیڑوں میں لٹکے جھولوں اور کالی سیاہ گھٹا ئوں میں کوئل کی کوکو کے ساتھ لڑکیاں بالیاں ملہار گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ میٹھے نمکین پکوان تلے جاتے اور بادشاہ سلامت یہ سب دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔

تحریر: عثمان ججہ
 

Advertisement