لاہور: (سپیشل فیچر) پاکستان میں ملتان سے لوارلائی روڈ پر واقع یہ سٹیل کا پل ایشیا کا دوسرا بڑال سٹیل برج ہے جبکہ ایشیا کا سب سے بڑا برج چین میں واقع ہے۔
جنوبی پنجاب اور بلوچستان کی سرحدوں کے درمیان ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جاتے ہوئے اس پل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جاپان اور پاکستان کے انجینئرز کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔
یہاں سٹیل کے چھوٹے بڑے آٹھ پل ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کیلئے شروع میں بہت تنگ راستے تھے اب بھی کچھ جگہوں پر صرف ایک ٹرک ہی گزر سکتا ہے لیکن اب سڑک کافی بہتر ہوچکی ہے۔
یہاں آپ کو اشیا لے جاتے ہوئے ٹرک کافی زیادہ تعداد میں ملیں گے۔ ویسے تو سنسان علاقہ ہے لیکن سڑک کے کنارے کہیں کہیں چھوٹی دکانیں بھی مل جائیں گی جہاں آپ ضرورت کی چیزیں پانی یا کھانا لے سکتے ہیں، ٹائر کو پنکچر بھی لگایا جاتا ہے، سکیورٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں اس لئے سیاح یہاں بلا جھجک آ سکتے ہیں۔
انگریز دور میں یہ روڈ بہت تنگ تھا لیکن اب روڈ کے ایک طرف موجود چٹانوں کو کاٹ کر راستہ کھلا کیا گیا ہے۔ سڑک کے دوسری جانب گہری کھائی ہے، سڑک پر سفر کرتے ہوئے یہاں کی قدرتی خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے۔
ایک طرف سرسبز و شاداب پہاڑ ہیں تو دوسری طرف خشک چٹانیں۔ اگر یہاں بارش ہوجائے تو کمال کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
پل کے قریب بل کھاتی کھلی سڑکیں عجب ہی سماں لیئے ہوتی ہیں جس پر یک لخت انجینئرز کی تعریف کرنے کو دل کرتا ہے کہ اس پرخطر اور تنگ راستوں کو جس مہارت سے کاٹ کر اور پھر پلرز پر پل کھڑے کئے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ان پلوں کے پلر 150 فٹ تک بلند ہیں اور وہاں سڑک گول دائروں کی شکل میں اوپر جاتی ہے۔یہ سڑک بننے سے پہلے اوورلوڈ ٹرک اوپر چڑھتے ہوئے کافی مشکلات کا شکار ہوتے تھے اور بہت سا وقت لگ جاتا تھا لیکن یہ پل اور سڑک بننے سے یہ تمام مشکلات ختم ہوچکی ہیں اور چند منٹوں میں آپ نیچے سے اوپر پہاڑوں پر آجاتے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو پچاس ساٹھ کلومیٹر سفر کرنے کے بعد آپ اس پل کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ فورٹ منرو جنوبی پنجاب کا مری بھی کہلاتا ہے۔
سڑک کے ساتھ کچھ مقامات پر چٹانوں سے لگے بلاک بھی ملتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ لینڈ سلائیڈنگ کو روکنے کیلئے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں کی خاص بات ٹھنڈا موسم اور آلودگی سے پاک ماحول ہے ۔ آسمان بہت صاف شفاف نظر آتا ہے ۔
ڈیرہ غازیخان کے قبائلی علاقہ راکھی گاج تا بواٹہ کی تعمیر کے منصوبے پر کام 142 ملین لاگت سے 2017 میں شروع ہوا تھا۔انجینئرز اور ورکرز کی انتھک محنت سے یہ شاہکار وجود میں آیا۔اس پراجیکٹ کا نام N70 تائیسی پراجیکٹ ہے، یہ راکھی گاج ٹو بواٹہ اور جو گردو کا ایریا ہے اس کو سیکشن ون کہتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں کافی مشکلات کا سامنا رہا لیکن آفیسران و سٹاف کی بہتر حکمت عملی اور محنت رنگ لے آئی۔ اس پل میں سٹیل کے کم و بیش چودہ ٹکڑے جوڑے گئے ہیں۔
اس سٹیل پل کو بنانے کا مقصد اصل میں صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان کو آپس میں ملانا، راستہ آسان اور فاصلے کو کم کر کے قلعہ سیف اللہ تک آسان اور پرسکون بنانا تھا۔ کوہ سلمان رینج ڈیرہ غازی خان کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں اور سیاح برادری کی رسائی کوہ سلمان تک آسان ہو چکی ہے۔
جاپان کی عالمی تعاون ایجنسی(جائیکا) کی جانب سے اس پل کی تعمیر کے لیے قرضہ انتہائی کم مارک اپ (0.2فیصد)پرفراہم کیاگیا۔یہ قرضہ 40سال میں واجب الادا ہے۔ یہاں سے اب ٹرک اور ٹرالر 40کلومیٹر کی رفتار سے بھی گزرسکتے ہیں ۔این ایچ اے کے ڈائریکٹرتعمیرات کا کہنا تھا کہ ان پلوں کی میعاد 100برس تک ہے۔ اگر احتیاط برتی جائے اور گزرنے والی ٹریفک پر اوورلوڈنگ نہ ہوتو ان پلوں کی میعاد مزید بڑھ جائے گی۔
تحریر: عون محمد، ہاشم لغاری بلوچ