بیونس آئرس: (ویب ڈیسک) ارجنٹینا میں جھیل کے پانی کا رنگ تبدیل ہو کر چمک دار گلابی ہو گیا ہے جو دیکھنے میں تو نظروں کو بھلا لگتا ہے لیکن ماہرین نے انتباہ کیا کہ اسکی وجہ وہ زہریلے کیمکلز ہیں جو جھینگوں اور مچھلیوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماحولیاتی ماہرین نے بتایا کہ جھیل میں پانی کی رنگت سوڈیم سلفائٹ کی وجہ سے تبدیل ہوئی ہے۔ یہ جراثیم کش کیمکل ہے جو فیکٹریوں میں آبی حیات کو طویل عرصے تک محفوظ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جھیل کے پانی کی رنگت اسلئے گلابی ہو گئی ہے کیونکہ فیکٹری میں استعمال شدہ آلودہ پانی بعد ازاں قریب بہنے والے دریائے شوبٹ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس دریا کا پانی بہتے ہوئے جھیل کورفو میں جا گرتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق دریائے شوبٹ اور جھیل کورفو کے قریب واقع آبادیاں کئی مرتبہ حکام سے فضا میں پھیلی بو اور دیگر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں شکایت کر چکی ہیں۔
ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن پابلو لاڈا نے کہا کہ جن عہدے داروں کو ماحول کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کرنے چاہئیں، انہوں نے ہی لوگوں کو مبینہ طور پر زہر دینے کی اجازت دی ہے۔ جھیل کورفو کی رنگت پچھلے ہفتے ہی تبدیل ہونے کے بعد گلابی ہوئی ہے۔ پابلو جھیل کورفو کے قریب واقع شہر ٹریلیو کے رہائشی ہیں۔ اتوار کے روز بھی جھیل کے پانی کا رنگ گلابی ہی تھا۔
ماحولیات کے انجنیئر اور وائرس کی سائنس کے ماہر فیڈریکو رسٹریپو نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جھیل کے پانی کی رنگت میں تبدیلی کی وجہ مچھلیوں کی ضائع کی جانے والی الائشوں میں ایک کیمکل سوڈیم سلفائٹ کی موجودگی ہے۔ قانون کا تقاضا یہ ہے کہ فیکٹری کے پانی کو دریا میں پھینکنے سے قبل اسے صفائی کے عمل سے گزارا جائے۔
صوبہ شوبٹ میں ماحولیات کے محکمے کے سربراہ جوائن مچلوڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھیل کے پانی کی سرخ مائل رنگت سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ رنگ کچھ دنوں کے بعد خود ہی غائب ہو جائے گا۔ ٹرلیو شہر کی پلاننگ کی سیکرٹری سبسٹین لا والینا اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ایک سنجیدہ مسئلے کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔
ٹرلیو چھ لاکھ آبادی کا ایک شہر ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں مچھلیاں، جھینگے اور دیگر آبی حیات کو پراسس کر کے برآمد کرنے والی فیکٹریاں قائم ہیں۔ یہ فیکٹریاں اس صوبے میں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔ درجنوں غیر ملکی کمپنیاں بھی اسی علاقے میں ماہی گیری اور ان کی برآمد کا کام کرتی ہیں۔