شام کا شہر مشرقی غوطہ شدید بمباری سے دوچار ہے۔ وہاں رہائش پذیر پاکستانی شہری محمد فضل اکرم ان افراد میں شامل ہیں جووہاں سے زندہ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اکرم نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہم یہ تک نہیں جان پا رہے تھے کہ ہمیں کون قتل کر رہا ہے اور کون قاتل نہیں ہے۔ ہمیں صرف ایک چیز کا علم تھا اور وہ یہ کہ ہمارا شہر برباد ہو رہا ہے۔ محمد فضل اکرم اب پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں اور مشرقی غوطہ میں جاری تباہی کا آنکھوں دیکھا حال بتا رہے ہیں۔
محمد فضل اکرم 1974 میں مشرقی غوطہ منتقل ہوئے تھے۔ ان کی دو بیویاں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق غوطہ سے جبکہ دوسری کا تعلق پاکستان سے ہے جو ان کی کزن بھی ہیں۔ شہر کے باہر سے آنے والے عسکریت پسندوں نے اکرم کے دو بیٹوں کو گروہ میں بھرتی کر لیا، جبکہ اس کا تیسرا بیٹا 2013 میں گلی کوچے میں پھیلے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوگیا۔ اکرم کی شامی بیوی ربی جرد بیٹے کے غم کو برداشت نہ کر سکی اور دل کے دورے کے باعث انتقال کر گئی۔
اکرم نے 2015 میں جب اپنے خاندان کے ساتھ مشرقی غوطہ سے نکلنے کی کوشش کی تو پہلے باغیوں نے ان پر گولی چلائی اور پھر حکومتی فورسز نے، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل نہ سکے۔ اکرم نے مشرقی غوطہ کی دردناک صورتحال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پورے علاقے میں ہر طرف بری طرح زخمی لوگ دیکھے اور کئی مقامات پر ملبے تلے انسانی لاشیں گلتی سڑتی نظر آئیں۔ اکرم کے مطابق وہ ہسپتال میں بازوؤں اور ٹانگوں کے بغیر پڑی ایک بچی کی یاد اپنے دماغ سے مٹا نہیں سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ کسی کو یہ مناظر کبھی نہ دکھائے۔
واضح رہے کہ شامی فورسز نے ایک طویل عرصے سے باغیوں کو کچلنے کے لیے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس محاصرے سے علاقے میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء ناپید ہوچکی ہیں، جب کہ آسمان سے آگ برس رہی ہے۔