لاہور: (روزنامہ دنیا) یہ احساس کافی خوشگوار ہے کہ سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی سے جیل میں پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ خصوصاً میرے لئے کیونکہ سرکوزی پر جلد میرے پرانے دوست لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے قتل کی سازش کا الزام لگ سکتا ہے۔
سرکوزی اوران کے سابق چیف آف سٹاف کلاڈ گوئنٹ سے 2007 کی انتخابی مہم کیلئے قذافی سے خفیہ طور پر پانچ کروڑ یورو لینے کے الزام کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ یہ ادائیگی فرانسیسی قانون کے تحت سیاسی عطیات کی قابل اجازت حد کی خلاف ورزی ہے، غیر ملکی فنڈنگ پر پابندی اور امیدوار کا اس طرح کی ادائیگیوں کی رپورٹ نہ کرنا بھی قابل تعزیر ہے۔
سرکوزی تیل پیدا کرنیوالی خلیجی ریاستوں سے خفیہ ادائیگیوں کے الزامات پر بھی زیر تفتیش ہیں۔ انتخابی فنڈنگ کی حد کم ہونے پر امریکہ کی طرح فرانس کے سیاسی امیدواروں کو اپنی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا رہتا ہے، یہ اس لئے ہے تاکہ کوئی امیدوار بھاری رقم لگا کر الیکشن خرید نہ سکے۔ قذافی اور گوئنٹ پر الزامات کئی سال سے لگ رہے تھے مگر ہمیشہ خاموشی اختیار کی گئی۔
سرکوزی کو اس وقت بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان پر معروف کاسمیٹکس کمپنی کی سن رسیدہ وارثہ سے بھاری رقم ہتھیانے کا الزام لگا۔ تین سال قبل لبنانی نژاد فرانسیسی تاجر نے فرانس کی تحقیقاتی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کو بتایا کہ اس نے 5 کروڑ یورو سے بھرے سوٹ کیس گوئنٹ کو دیئے تھے ۔ اس پر سابق چیف آف سٹاف نے دعویٰ کیا کہ وہ رقم ایک پینٹنگ کے عوض تھی جوانہوں نے ایک لبنانی کو فروخت کی ۔ بلاشبہ ایسا ہی تھا! ۔ 2007میں سرکوزی فرانس کے صدر بن گئے ۔ اس وقت وہ اور قذافی بظاہر اچھے دوست تھے ۔ لیبیا کے رہنما نے پیرس کا دورہ کیا، صدارتی محل کے گراؤنڈ میں بدوی خیمہ لگایا، ان کے اعزاز میں شاندار استقبالیہ دیا گیا، جس کیلئے فرانس دنیا میں معروف ہے۔
فرانس کو لیبیا کے اعلیٰ معیار کے تیل میں دلچسپی تھی، شمالی افریقہ پر سابق اثرورسوخ کی بحالی کیلئے بھی پیرس لیبیا کو راہداری کے طور پر استعمال کررہا تھا۔ خطے کے ان انتہا پسند باغیوں کے خلاف فرانس اور لیبیا کا خفیہ گٹھ جوڑ بھی چل رہا تھا جو کہ مغربی اور وسطی افریقی ملکوں پر فرانس کے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمرانوں کیخلاف لڑ رہے تھے۔ پھر سرکوزی اچانک قذافی کے خلاف، اور ان کا تختہ الٹنے کی امریکی و برطانوی کوششوں کے حصہ دار بن گئے۔ ایسا فرانس نے پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا۔
سابق فرانسیسی صدر متراں نے اپنے انٹیلی جنس چیف کونٹ ڈی مارنشس کو قذافی کا ذاتی طیارہ بم نصب کر کے تباہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مارنشس نے مجھے بتایا کہ طیارے پر بم نصب کر دیا گیا تھا، مگر پھر ہٹا دیا گیا کیونکہ طرابلس سے تعلقات بہتر ہو گئے تھے۔
برطانوی انٹیلی جنس ایم 16 نے بن غازی لیبیا میں قذافی کو گاڑی میں بم نصب کرکے قتل کرنے کی ناکام کوشش کی، اس واقعہ میں کئی شہری ہلاک ہو ئے۔ سرکوزی نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے مطالبے کو مان لیا کہ اپنے اتحادی کے خلاف جنگ میں شامل ہو کر تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لیں۔ امریکی، فرانسیسی اور برطانوی جنگی طیاروں اور سپیشل فورسز نے لیبیا پر حملہ کیا، جسے ریسکیو مشن کا نام دے کر غلط بیانی کی گئی۔ فرانسیسی طیارے نے قذافی کے کانوائے کو نشانہ بنایا، سپیشل فورسز اور لیبیا کے زر خرید مظاہرین نے قذافی کو پکڑا ، تشدد کیا، پھر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
قذافی سے ایک سنگین غلطی ہوئی تھی، اس نے بڑے بیٹے سیف قذافی اور چند سینئر افسروں کو سرکوزی کو خفیہ ادائیگی کا بتا دیا تھا۔ جب سیف قذافی نے یہ انکشاف کیا، سرکوزی نے فوری لیبیا پر حملے کا حکم دیدیا۔ مردے کہانیاں نہیں سناتے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس دشمنوں اور باعث زحمت بننے والوں کو مٹانے کی بہت مہارت رکھتی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ فرانسیسی محکمہ انصاف سرکوزی اور قذافی کے قتل کے درمیان تعلق کے کمزور سرے تک پہنچ جائیگا مگر سرکوزی کے براہ راست ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت اس کے پاس نہیں ہوگا۔ اگر جارج ڈبلیو بش اور ڈک چینی لاکھوں عراقیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری سے صاف بچ سکتے ہیں تو چھوٹی سے حرکت پر سرکوزی کے خلاف کارروائی کیونکر ہو گی۔
(ایرک ایس مارگولس)