لاہور: (روزنامہ دنیا) یورپ میں واقع جمہوریہ اٹلی یا اطالیہ اپنی قدیم تاریخ، علوم، فنون لطیفہ، خاص طور پر دور نشاۃ ثانیہ کے فن تعمیر، مصوری اور مجسمہ سازی کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اٹلی کے تمام بڑے تہذیبی مراکز مثلاً فلورنس، پیسا اور خود روم وسطی اٹلی میں واقع ہیں۔
اٹلی کی تاریخ نہایت طویل ہے۔ پانچویں صدی قبل مسیح تک کے حالات کے بارے میں معقول حد تک معلومات موجود ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ جنوبی اٹلی اور سسلی میں یونانیوں نے نوآبادیاں قائم کی تھیں۔ 800 ق م سے قبل اتروسکن (Etruscans) مشرق قریب سے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے مقامی آبادی کو غلام بنا کر ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی جو انتہائی ترقی یافتہ، مہذب اور خوش حال تھی۔ چوتھی صدی عیسوی میں کِلت لوگوں نے، جنہیں اطالوی مؤرخ ’’گال‘‘ کہتے ہیں، حملہ کر کے اتروسکن کو وادیٔ پو سے نکال بھگایا۔ اس زمانہ میں جنوبی اٹلی پر سمنائٹ (Samnites) کا قبضہ تھا۔ انہوں نے اتروسکن کو اس طرح آگے بڑھنے سے روکے رکھا اور بعد میں انہیں کمپانیا سے نکال باہر کیا۔
پانچویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک کا زمانہ روم اور رومن سلطنت کی ترقی کا زمانہ تھا۔ اس دور میں پورے اٹلی پر لاطینی تہذیب پوری طرح چھا گئی۔ تمام آزاد اطالویوں کو رومن شہریت حاصل ہو گئی اور اس وقت روم کو جو خوش حالی نصیب ہوئی ویسی اس کی قسمت میں کبھی پھر نہ آئی۔ پانچویں صدی میں رومن سلطنت کے دوسرے حصوں کی طرح اٹلی میں بھی عیسائیت تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی۔ اس زمانہ میں جرمنی کے قبیلوں اور ہنوں نے اس پر حملے شروع کر دیے۔
476ء میں مغرب کے آخری رومن شہنشاہ کو گدی چھوڑنی پڑی اور یہیں سے رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ مشرقی رومن سلطنت نے، جس کا صدر مقام قسطنطنیہ میں تھا، اس پر اپنا حق کبھی نہیں چھوڑا اور اس پر دوبارہ قبضہ کر نے کی کوشش کرتی رہی۔ چھٹی صدی میں عیسائیت لاطینی تہذیب و تمدن کی علم بردار بن کر ابھری۔ پوپ گیری گوری اول نے، بغیر بازنطینی امداد کے، روم اور سینٹ پیٹر کو لومبارڈوں کے حملے سے بچایا اور یہاں سے پاپائی ریاستوں کی بنیاد پڑی۔ گیری گوری اول نے اس کے ساتھ روم کو بازنطینی اقتدار سے بھی آزاد کروا لیا اور اٹلی کی سیاست میں پوپ کو زبردست دخل حاصل ہو گیا۔
آٹھویں، نویں اور دسویں صدی میں شمال سے اٹلی پر کئی حملے ہوئے اور ریاستیں بنیں اور ٹوٹیں۔ 961ء میں پوپ نے جرمنی کے بادشاہ آٹو کو اٹلی پر حملہ کرنے اور دوسرے حملہ آوروں سے بچانے کی اپیل کی۔ آٹو نے حملہ کیا، پوپ کے مخالفوں کو شکست دی اور پوپ نے اس کے سر پر اٹلی کی حکمرانی کا تاج رکھا۔ اٹلی اور جرمنی کے اس اتحاد سے ’’مقدس رومن‘‘ سلطنت کی بنیاد پڑی، لیکن جیسے ہی جرمن فوجیں اٹلی سے واپس جاتیں مقامی بغاوتیں ہوتیں اور چھوٹی چھوٹی خودمختار حکومتیں قائم ہو جاتیں۔ اس کے نتیجہ میں ہمیشہ افراتفری رہتی۔
اس سے پوپ اور جرمنی کے شہنشاہ میں اختلافات ابھرتے اور اس لیے شمالی اٹلی میں جاگیرداری نظام جڑ نہ پکڑ سکا۔ یہاں جگہ جگہ شہری ریاستیں قائم ہوئیں۔ اس کے برعکس جنوبی اٹلی پر ایک عرصہ تک خاندانی تسلط رہا اور جاگیرداری نظام اپنی بدترین شکل میں مسلط رہا۔ آج تک شمالی اٹلی میں جو خوش حالی ہے اور جنوب میں جو پسماندگی ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے۔
کئی سو سال تک اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا اور ان میں آپس میں سخت لڑائیاں ہوتی رہیں۔ پندرہویں صدی میں جب نشاۃ ثانیہ اپنے عروج پر پہنچا تو سپین، فرانس، آسٹریا وغیرہ میں طاقت ور سلطنتیں قائم ہو چکی تھیں۔ اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اس لیے بڑی ریاستوں کی اس پر آنکھ تھی اور وہ ان کے حملوں کا شکار رہا۔
فرانس اور سپین کی آپس میں اٹلی پر قبضہ کرنے کے لیے کافی رقابت رہی چنانچہ 1494ء میں فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کیا اور 1559ء تک اس کا بڑا حصہ سپین کے قبضہ میں چلا گیا۔ فرانس کے انقلاب نے ایک مرتبہ پھر اٹلی کی سیاسی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی۔ نپولین بونا پارٹ نے اٹلی کے بڑے حصہ پر قبضہ کر کے تمام پرانے اداروں کو توڑ دیا۔ بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات کیں لیکن اب بھی بہت سے حصے آسٹریا کے قبضے میں رہے۔ پوپ سے الگ کشمکش چلتی رہی۔
آخر کار 1848ء میں سارڈینیا میں ایک نیا آئین منظور کیا گیا اور حکومت نے اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران معاشی بدحالی اور بے چینی بڑھتی گئی۔ ہزاروں اطالوی ترک وطن کر کے امریکا چلے گئے۔ 1882ء میں حکومت اٹلی اور جرمنی کا معاہدہ ہو گیا اور اٹلی نے افریقہ میں مقبوضات حاصل کرنے شروع کیے۔ پہلے ایری ٹیریا اور صومالیہ کے کچھ حصے کو نو آبادی بنایا۔ 12-1911ء میں ترکی کے ساتھ لڑائی کے بعد اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کر لیا۔ 1935ء میں مسولینی نے سخت فوجی راج قائم کر دیا۔
مسولینی کی سربراہی میں فسطائی قوتیں معاشی بدحالی کے دور میں پروان چڑھیں۔ مسولینی اور ہٹلر کا اتحاد ہوا اور انہوں نے یورپ کے دیگر ممالک کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع کر دیں۔ جنگ کی وسیع تباہیوں سے گزرنے کے بعد دونوں ممالک کو شکست ہوئی۔ فسطائیت کے خاتمے کے بعد یکم جنوری 1946ء کو ایک نیا جمہوری آئین مرتب کیا گیا۔
تحریر: محمد جمیل