انڈیا: جنسی درندوں نے اپنی 'مقدس' گائے کو بھی نہ بخشا

Last Updated On 26 December,2018 06:45 pm

نئی دہلی: (ویب ڈیسک) انڈین ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق ایک بھارتی گاوں گوکی واڈا میں جنسی درندوں نے حاملہ گائے کو بھی حیوانیت کا نشانہ بنا ڈالا۔ ملزمان کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

 

رپورٹ کے مطابق گائے جس کا نام نامہ بچی راجو ہے، 3 ماہ کی حاملہ تھی جبکہ گزشتہ اتوار کو یہ اچانک سے غائب ہو گئی، تلاش کرنے پر اسے دور دراز کھیتوں سے ڈھونڈا گیا جہاں وہ ایک درخت کیساتھ بندھی ہوئی تھی۔ بعدازں جانوروں کے معالج نے گائے کیساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق کی۔

اس واقعہ پر گائے کے مالک کسان نے پولیس میں انداراج مقدمہ کی درخواست بھی دائر کر دی ہے جبکہ مقامی افراد نے واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انتظامیہ سے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے، مقامی افراد نے میڈیا کو بتایا کہ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

بھارت میں گائے مقدس جانور


گائے ہندو برادری کی اکثریت کے لیے ایک مقدس جانور ہے اور آپ اسے بھارت کی دھوئیں میں ڈوبی ہوئی سڑکوں پر مزے سے ٹہلتے ہوئے دیکھتے ہیں جہاں کوئی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔

مختلف تہواروں کے دنوں میں گائے کی پوجا کی جاتی ہے اور انھیں خوب سجایا جاتا ہے۔ مذہبی تہواروں سے پہلے مندروں سے منسلک لوگ گائے کی پیشانی پر رنگ لگا کر اسے گلیوں محلوں میں لیے پھرتے ہیں اور خیرات اکھٹی کرتے ہیں۔نہ صرف یہ، بلکہ بھارت میں ایک رسالہ بھی شائع ہوتا ہے جس کا نام ہے ’انڈین کاؤ‘ یا بھارتی گائے اور ایک خیراتی ادارہ یا ٹرسٹ بھی ہے جس کا نام ’لو فور کاؤ‘ یا گائے سے پیار ہے۔

گائے پر سیاست

بھارت ہی میں مختلف مذہبی اقلیتوں کی مجموعی آبادی بھی کئی کروڑ بنتی ہے اور ان میں مسلمانوں کے علاوہ مسیحی اور نچلے سماجی طبقات کے ہندو بھی شامل ہیں، جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ بھارت میں بیف ہر یونین ریاست میں نہیں بیچا جاتا اور کئی صوبوں میں تو گائے ذبح کرنا قانوناﹰ منع بھی ہے۔

بھارت کے 29 صوبوں میں سے صرف آٹھ اسے ہیں، جہاں گائے ذبح کرنا، بیف بیچنا اور کھانا قانوناﹰ منع نہیں ہے۔ اس حوالے سے نئی دہلی میں ملکی سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا، ’’کوئی ریاست چاہے تو گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو ایسا نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں ریاستی قوانین میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔‘‘

بھارت میں کئی بنیاد پرست ہندو مذہبی گروپوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کی طرف سے طویل عرصے سے یہ مہم چلائی جاتی رہی ہے کہ پورے ملک میں گائے ذبح کرنے اور گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کی جانا چا ہیے۔

2014ء کے ملکی الیکشن میں تو بی جے پی نے جو بہت بڑی کامیابی حاصل کی تھی، اس کی ایک وجہ جزوی طور پر کیے جانے والے یہ عوامی وعدے بھی تھے کہ گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔ اب تک لیکن مودی حکومت صوبائی حکومتوں کو اس  امر کا قائل کرنے میں ناکام رہی ہے کہ انہیں اپنے ہاں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگانا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں بی جے پی کی حکومتوں والی چند بھارتی ریاستیں ایسے سخت قانون بھی متعارف کرا چکی ہیں، جن کے تحت مثال کے طور پر نہ صرف گائے کو ذبح کرنا ممنوع ہے بلکہ اگر کسی شہری پر بیف کھانے یا گائے کے گوشت کو اپنے قبضے میں رکھنے کا الزام ثابت ہو جائے، تو اسے دس سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

بھارت میں گائے کا ذبیحہ ایک متنازع موضوع


کیرلا،ناگالینڈ،مغربی بنگال،اروناچل پردیش،میزورام اور سکم جیسی ریاستوں میں گائے کی ذبح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر میں بھی ریاستی حکومت کی جانب سے گائے کی ذبح پر پابندی لگائی گئی تھی، چونکہ مقامی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اس لیے اس پابندی کے خلاف مظاہرے ہوئے جس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے عارضی طور پر ہائی کورٹ کا حکم معطل کیا اور گائے کے ذبح سے پابندی ہٹائی۔ ریاست میں نافذ ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 298-A کے مطابق جموں کشمیر میں گائے کشی پر پابندی تھی، تاہم مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناطے یہاں گائے، بیل یا بھینس کا گوشت جسے عرف عام میں بڈماز کہا جاتا ہے، عام تھا۔

35 برس پہلے بھی جب بڈماز پر پابندی کی بات ہوئی تو کشمیر کے جنوب میں اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما قاضی نثار نے چوراہے پر ایک گائے کو ذبح کیا جس کے بعد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔

اگرچہ بھارت کی اکثر ریاستوں میں گائے کو ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل کرنا غیر قانونی عمل ہے لیکن پھر بھی ایک بہت بڑی تعداد میں ان ریاستوں میں قصاب خانے موجود ہیں جن میں اکثریت غیر قانونی قصاب خانوں کی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان غیر قانونی قصاب خانوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہے لیکن اکثر ناکام رہے ہیں۔ آندھرا پردیش کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ 3,100 غیر قانونی اور صرف 6 قانونی قصاب خانے ہیں۔

گوشت فراہم کرنے کے لحاظ سے مجموعی طور پر بھارت دنیا کا پانچواں ملک ہے جو سب سے زیادہ گوشت فراہم کرتا ہے، برآمد کرنے میں پہلا بڑا ملک ہے اور مقامی سطح پر گوشت استعمال کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے۔ تاہم جو گوشت بھارت فراہم کرتا ہے اس میں زیادہ تر بھینس کا گوشت ہوتا ہے جو ہندومت میں مقدس نہیں مانا جاتا۔