لاہور: ( روزنامہ دنیا ) افغان طالبان کی جانب سے اسلام آباد میں امریکی وفد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ ملاقات منسوخ کرنے کے اعلان نے ایک مرتبہ پھر کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
بعض ذرائع نے ملاقات کی منسوخی کی وجہ طالبان گروپوں میں اختلافات کو قرار دیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کی شام ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا تھا کہ 18 فروری کو اسلام آباد میں امارت اسلامی اور امریکی وفد کے درمیان ملاقات طے کی گئی تھی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان نے اس ملاقات کے لیے تمام تر تیاری مکمل کر لی تھی لیکن بدقسمتی سے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے بیشتر افراد پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے سفری پابندیاں عائد ہیں لہذا یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملاقات کی منسوخی کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس ضمن میں میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں میں بھی کوئی حقیقت نہیں کہ ملاقات میں تاخیر ان کی جانب سے کی گئی ہے۔ اگرچہ طالبان ترجمان کی طرف سے اس بیان میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لیکن اطلاعات ہیں کہ اس دورے کے دوران امریکی اور طالبان وفود نے عمران خان سے بھی ملاقات کرنا تھی۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہونا تھا جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے دو روزہ دورے پر تھے۔ اسلام آباد میں دو دنوں سے یہ اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں کہ شاید طالبان وفد کی ایک ملاقات شاہ سلمان سے بھی طے کی گئی تھی لیکن سرکاری طورپر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کا کوئی رسمی دورہ نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کوئی باقاعدہ امن مذاکرات ہونے تھے بلکہ یہ تو ایک عام سی ملاقات تھی جس کا مقصد شاید خیر سگالی کا پیغام دینا اور امن کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اس دورے کی منسوخی کی وجہ سفری پابندیاں بتائی ہیں لیکن یہ کوئی زیادہ موثر دلیل نہیں لگتی کیونکہ طالبان اس سے پہلے پاکستان، روس، انڈونیشیا، چین، ایران اور ازبکستان کے دورے کرچکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان قیادت میں اس دورے پر اتفاق رائے نہیں تھا کیونکہ جب مذاکرات کا ایک سلسلہ پہلے ہی جاری ہے اور جس کا اگلہ مرحلہ قطر میں ہونا ہے تو ایسے میں شاید کچھ طالبان رہنما اسلام آباد دورے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تھے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ چند دن پہلے جب طالبان کی طرف سے اسلام آباد دورے کا اعلان کیا گیا تو افغان حکومت کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ افغان حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک شکایتی مراسلہ بھیجا تھا جس میں کہا گیا کہ طالبان کے دورے پر ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا لہذا اس سے امن کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1988 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
پشاور میں انگریزی اخبار سے وابستہ ایک اور سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کی ٹائمنگ ایسی تھی جس سے بالخصوص طالبان کے لیے کنفیوژن کی صورتحال پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے ایسے وقت پاکستان آنا تھا جب سعودی ولی عہد شاہ سلمان بھی پاکستان میں موجود تھے جس سے ایک ایسا تاثر جارہا تھا کہ شاید ان کی ملاقات سعودی شہزادے سے بھی ہوگی۔ ان کے مطابق اگر طالبان سعودی شہزادے سے ملاقات کرتے تو یہ ان کے لیے ایک اور مسئلہ بن سکتا تھا کیونکہ ان کا سیاسی دفتر قطر میں ہے اور قطر اور سعودی عرب کے درمیان کچھ عرصہ سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں لہذا ان کے لیے کئی قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ بھی طالبان وفد کا پاکستان کا دورہ کرنے اور عمران خان سے ملاقات پر راضی نہیں تھے۔ اگرچہ طالبان کی طرف سے 25 فروری کو دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں تعطل کا کوئی عندیہ تو نہیں دیا گیا لیکن بعض اہم افغان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طالبان گروپوں میں اختلافات کے باعث حالیہ مذاکراتی عمل کچھ عرصے کے لیے تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ شاید طالبان کی جانب سے چند دن پہلے اعلان کردہ مذاکرتی ٹیم میں مزید تبدیلیاں لائی جائیں۔ خیال رہے کہ طالبان نے چند دن پہلے عباس ستنگزئی کی سربراہی میں 14 رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا جو امریکہ سے اگلے مرحلے میں مذاکرات میں حصہ لے گی۔ ان میں طالبان کے وہ پانچ رہنما بھی شامل ہیں جو ماضی میں امریکی جیل گوانتانا موبے میں قید رہ چکے ہیں۔