لاہور: (روزنامہ دنیا) مودی حکومت نے آرٹیکل 370 منسوخ کر کے کشمیر کی خود مختاری ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دی ہے۔ وزیراعظم مودی نے جبر اور دھوکے سے یہ تبدیلی ممکن بنائی، کشمیر ی قیادت گرفتار کر لی ، انٹرنیٹ اور فون نیٹ ورکس بند کر دیئے، اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ فیصلے سے ایک ہفتہ قبل وادی میں تیس ہزار فوجی بھیجے گئے، بعدازاں مزید آٹھ ہزار فوجی بھیج دیئے گئے۔ مودی حکومت نے آئینی فریب کاری سے کام لیتے ہوئے اس حقیقت کا فائدہ اٹھایا کہ آئینی تبدیلیوں کیلئے جس کشمیر اسمبلی کی تائید لازمی ہے، ایک سال قبل تحلیل کر دی گئی تھی۔
ایک ریاست کا وجود ختم کرنے کی اس آئینی شعبدہ بازی کا بھارتی سپریم کورٹ کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے تھا۔ امکان ہے کہ اس فیصلے سے بھارتی حکومت پر کشمیریوں کا عدم اعتماد مزید بڑھے گا۔ جس خودمختاری کا ان کیساتھ وعدہ ہوا تھا، اس کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ 1987 میں ریاستی انتخابات میں دھاندلی نے بغاوت کی جو لہر پیدا کی، وہ سالوں تک دبی رہی، جسے 2016 میں حریت پسند لیڈر کی شہادت نے ایک بار پھر بھڑکا دیا۔ مقامی لوگ سخت نالاں اور بددل ہیں۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں کشمیر کا مجموعی ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے کم جبکہ سری نگر کا محض 14 فیصد رہا، جبکہ مجموعی طور پر بھارت بھر میں ٹرن آؤٹ 62 فیصد تھا۔
کشمیر کی خونی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں غیر کشمیری باشندوں کو جائیدادیں خرید نے کی اجازت اور اس سے ممکنہ آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے خدشات سنگین نتائج کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ بعض بھارتی مبصرین اس فیصلے کا موازنہ تبت اور سنکیانگ میں چین کی مقامی آبادی کا تناسب کرنے کے پروگرام سے کرتے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے شمال مشرقی ریاستوں میں بے چینی کی لہر دوڑ ا دی ہے جنہیں بھارتی آئین خصوصی خود مختاری دیتا ہے۔
پاکستان نے اپنے ردعمل میں تمام ممکنہ آپشنز استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جس میں جہادی گروپوں کو سپورٹ کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پراکسی گروپوں کے خلاف اقدامات کا پاکستان پابند ہے، مگر کشمیریوں کا بڑھتا اشتعال پاکستانی گروپوں کیلئے نئی بھرتیاں آسان بنا دے گا۔ اس سے دو نیوکلیئر ریاستوں کے مابین فوجی ٹکراؤ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ مودی خود کو ایسے رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں جوکہ روایت سے ہٹ کر اقدامات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، 2016 میں اس نے بڑے کرنسی نوٹ منسوخ کئے، 30 جولائی کو طلاق کا اسلامی قانون ختم کیا۔ پارلیمانی اکثریت اور کمزور اپوزیشن کی وجہ سے اس کے حوصلے بلند ہیں۔
کشمیر سے متعلق فیصلہ ایک اشارہ ہے کہ وہ اس طرح اپنی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ہندو قوم پرست ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ان کا اگلا قدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہو سکتا ہے۔ وہ پرجوش قوم پرستی، نظریاتی مذہبی شاؤنزم کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، جس کا انجام اچھا نہیں۔