کراچی: (روزنامہ دنیا) طویل ترین انٹرنیٹ کی بندش کے باعث مودی کا ڈیجیٹل انڈیا کشمیر میں غرق ہونے لگا۔ بھارتی ویب سائٹ دی وائر کے مطابق ریاست میں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ بتاتے ہوئے کٹھ پتلی انتظامیہ کے ترجمان روہیت کنسال کا کہنا تھا کہ ہمیں خوف ہے کہ پاکستان کشمیر کی صورتحال خراب کرنے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کرسکتا ہے جس پر ایک صحافی نے کہا کہ پاکستان تو یہاں ہمیشہ موجود رہے گا اور حکومت نے اس حوالے سے کب سے پاکستان کو اختیارات سونپ دئیے۔ کنسال نے صحافی کے سوال پر کافی برہمی کا اظہار کیا۔
سخت سوالات کا سامنا کرنے کے بعد کنسال نے یہ کہتے ہوئے پریس کانفرنس ختم کی کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ اس پریس کانفرنس کو دس روز گزر چکے ہیں، جس کے بعد کنسال نے پھر میڈیا سے گفتگو کی جرأت نہیں کی۔ اتوار کو کشمیر میں انٹرنیٹ بندش کا 49 واں روز تھا، تاحال حکومت کی جانب سے نہیں بتایا گیا کہ انٹرنیٹ بندش کب تک رہے گی، کشمیر کا رابطہ پوری دنیا سے کٹ گیا ہے۔ اگست کی 15 تاریخ کو نریندر مودی نے لال قلعہ میں انڈیا کو ڈیجیٹلائز بنانے پر روز دیتے ہوئے کہا تھا کہ عوام نقد کے بجائے ڈیجیٹل ذرائع سے ادائیگی کریں۔ عام آدمی کو انٹرنیٹ کے ذریعے با اختیار بنانے اور انڈیا کو ڈیجیٹل معاشرے میں تبدیل کرنے کا مودی کا خواب دہلی سے 800 کلو میٹر دور چکنا چور ہو چکا ہے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پولیس نے سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیا تاکہ سخت ترین پابندیوں پر عمل درآمد کرایا جاسکے، جس کے بعد سے تمام موبائل اور انٹرنیٹ سروسز تا حال بند ہیں۔ انٹرنیٹ کے بغیر چار سالہ عائشہ اپنے والد کے فون پر من پسند کارٹون نہیں دیکھ سکتی، ان کے گھر میں ٹیلی وژن بھی بند پڑا ہے، کیوں کہ سیٹ ٹاپ بکس کوری چارج کرانے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ 16 سالہ محمد محسن گریجویٹ داخلہ ٹیسٹ کیلئے مقررہ تاریخ تک آن لائن فارم جمع کرانے میں ناکام رہا۔ سرینگر میں آئی ٹی کے پیشے سے وابستہ 29 سالہ امتیاز حسین کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
ضلع بڈگام کے 27 سالہ اظہر بابا کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ استعمال کرنے اور انٹرنیٹ کی دنیا کے واقعات جاننے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، آپ کو انٹرنیٹ کے ذریعے بہتر تعلیم حاصل کرنے، آئی ٹی کمپنی میں نوکری حاصل کرنے یہاں تک کہ کوئی اچھی اور پسندیدہ سیریز دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اظہر آئی ایس اے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، انٹرنیٹ پر پابند ی نے اس کی پڑھائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اظہر نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کیلئے نئی دہلی شفٹ ہونے کا سوچ رہا ہے ۔ ذرائع مواصلات کی بندش نے میڈیا کا کام بھی بری طرح متاثر کیا ہے، کچھ رپورٹر تو اپنی خبریں یو ایس بی میں ڈال کر ایئرپورٹ سے مسافروں کے ذریعے بھیج رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کیلئے کام کرنے والے صحافی نے بتایا کہ ذرائع مواصلات پر پابندی کے پہلے ہفتے تو انہوں نے یو ایس بی میں خبریں ڈال کر نئی دہلی جانے والے مسافروں کے حوالے کیں، دہلی بیورو میں موجود لوگ یوایس بی حاصل کرلیتے تھے۔ غیر ملکی خبر ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والے فوٹو جرنلسٹ بھی تصاویر یو ایس بی میں ڈال کر ایئر پورٹ پر مسافروں کے حوالے کرتے تھے۔ شدید تنقید کے بعد حکومت نے سرینگر میں میڈیا سینٹر کھولا، جہاں نو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا صرف ایک کنکشن موجود ہے، صحافیوں کو اپنی رپورٹ بھجوانے اور اپنا میل بکس چیک کرنے کیلئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کشمیری نوجوان سوشل میڈیا ویب سائٹس، فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، انسٹا گرام اور واٹس ایپ تک رسائی کے خواہش مند ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش سے بھارتی حکومت کے چند اہم ترین پروگرام بھی منجمد ہو کر رہ گئے ہیں، انشورنس کیلئے رجسٹریشن کا آدھا کام رک چکا ہے، صحت کے حوالے سے بھی کئی اسکیمیں نامعلوم مدت تک کیلئے معطل ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ تاجر اور صنعت کار بھی انکم ٹیکس اور ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کیلئے بہت پریشان ہیں، تاجر عبدالمجید بھٹ کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کی کشمیر میں حقیقت یہ ہے کہ میں اپنا ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے قابل نہیں ہوں۔ کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن یہ انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش ہے، کشمیر میں 2016 میں پانچ ماہ تک جاری احتجاج اور بدامنی کے دوران بھی انٹرنیٹ محض 10 دن کیلئے بند کیاگیا تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ 2016 میں انٹرنیٹ 240 سے 280 گھنٹے تک کیلئے بند کیا گیا تھا، جبکہ حال میں ہی انٹرنیٹ کی بندش کو 4 ہزار 730 گھنٹوں سے زائد وقت گزر چکا ہے۔ 2008 میں جب وادی میں جنگلات کی زمین امر ناتھ بورڈ کو دینے کیخلاف شدید عوامی احتجاج ہوا، تب سے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کشمیر میں سب سے زیادہ بار انٹرنیٹ بند کیا گیا۔ کشمیر میں ہر وقت مسلح تصادم جاری رہتا ہے ، جس دوران ضلع بھر میں چار دن کیلئے انٹرنیٹ سروس بند ہو جانا معمول ہے۔
دہلی میں موجود تھنک ٹینک انٹرنیشنل کونسل فار ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 6 برس کے دوران انٹرنیٹ کی مسلسل بندش سے کشمیر کی معیشت کو 4 ہزار کروڑ کا شدید نقصان پہنچا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس دوران کشمیر میں 63 مرتبہ انٹرنیٹ کو بند کیا گیا، صرف 2017 میں ہی 34 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا، جس سے ایک ہزار 776 کروڑ کا نقصان ہوا۔ کشمیر میں ذرائع مواصلات کی بندش کے حوالے سے وزیر داخلہ امت شاہ کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ‘‘یہ کوئی نئی بات نہیں، ویسے بھی کشمیر میں انٹرنیٹ انڈیا میں آمد کے 16 برس بعد آیا اور موبائل فون 17 برس بعد آیا’’۔ 28اگست کو مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیا رام پال نے بندش کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا کہ‘‘ اس سہولت کا استعمال ملک کیخلاف ایک ہتھیار کے طور پر کیا گیا ہے، عسکریت پسند عوام کو جمع کرنے کیلئے ان سہولیات کا استعمال کرتے ہیں، فون اور انٹرنیٹ کون استعمال کرتا ہے، ہمارے لوگ کم ہی یہ سہولتیں استعمال کرتے ہیں، ان سہولتوں کا زیادہ استعمال پاکستان اور دہشت گردوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ رواں برس اپریل میں شعبہ مواصلات نے جموں و کشمیر سمیت کئی ریاستوں کو ایڈوائزری بھیجی تھی کہ انٹرنیٹ کی بندش سے جتنا ممکن ہو گریز کیا جائے، انٹرنیٹ کی طویل اور مسلسل بندش کی وجہ سے ٹیلی فون کمپنیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کالر آپریٹر ایسوسی ایشن کے مطابق ذرائع مواصلات کی بندش کے بعد سے ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کو کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر 2 کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔