لاہور: (ویب ڈیسک) امریکا میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش بڑھنے لگی، 2020ء کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے ممکنہ چاروں امیدوار وادی کی صورتحال پر مسلسل صدائیں بلند کرنے لگے اور اپنی تقریر میں تنازعہ کے پر امن حل کو ایجنڈا بنا لیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر متعدد بار ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں، صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے واحد ری پبلکن امیدوار ہیں، ڈیمو کریٹک پارٹی کے تین امیدوار بھی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، ان تین امیدواروں میں کمالا حارث، بیرنی سینڈرز، الزبتھ ویرن شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر 22 اکتوبر کو زیر بحث لایا جائے گا
ڈیمو کریٹک تین امیدواروں میں سے ایک بیرنی سینڈرز بھی اپنی کمپین کے دوران کہہ چکے ہیں کہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر کی عوام کی آواز سننا ہو گی، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر اٹھایا جانے والا قدم ناقابل قبول ہے۔ اس تنازع کا حل نکالنا ہو گا۔
دوسری امیدوارالزبتھ ویرن بھی کہہ چکی ہیں کہ بھارت کو کشمیر کے عوام کی رائے کو اہمیت دینا ہو گی، وادی کی خصوصی صورتحال کے خاتمے کے بعد سے لیکر اب تک کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، میں بتانا چاہتی ہوں کہ کشمیری عوام کے حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو مزید نظرانداز نہیں کر سکتا، امریکی اخبار
2020ء میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کی تیسری صدارتی امیدوار کمالا حارث کا کہنا ہے کہ ہم کشمیریوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے لیکر اب تک ہم صورتحال پر خصوصی نظر رکھے ہوئے ہیں، حالات خراب ہونے کی صورت میں مداخلت کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بیان اسلئے بھی بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ کمالا حارث کی والدہ شمائلہ گوپالان کا تعلق بھارت سے ہے۔ واضح رہے کہ کمالا حارث کی والدہ کا تعلق بھارتی ریاست تعلق تامل ناڈو سے تھا جو سائنسدان تھی اور 1960ء میں امریکا شفٹ ہو گئی تھیں۔ ان کے والد کا تعلق جمیکا سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مفاہتی کردار کہیں یا ثالثی، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جو ہوسکا کروں گا: ٹرمپ
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی دیگر امریکی صدارتی امیدوار مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد وادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، کمالا حارث کے علاوہ بیرنی سینڈرز، الزبتھ ویرن بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان تینوں صدارتی امیدواروں کا تعلق امریکی سینیٹ سے ہے، قوی امکان ہے کہ 2020ء کے الیکشن کے دوران ان تینوں میں سے کسی دو کو صدارتی الیکشن کیلئے ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے چنا جائے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والوں کی تعداد چار ہو جائے گی جو کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کرینگے۔ 2020ء کے الیکشن کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے واحد صدارتی امیدوار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر جینو سائیڈ واچ کے الرٹ پر تشویش ہے:امریکی ارکان کانگریس
اپنے ایک بیان میں کمالا حارث کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے، 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے اور کرفیو لگانے کا معاملہ ناقابل قبول ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ ہے کہ اس معاملہ پر دلیرانہ انداز میں بولیں اور کہیں کہ اس مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے اور کشمیری شہریوں کی عزت کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا مقبوضہ وادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار
یاد رہے کہ بھارتی نژاد امریکی کانگریس پارٹی کی رکن پرامیلا جے پال نے 13 ایوان نمائنندگان کیساتھ مل کر بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو ایک خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر سے پابندیاں فوری طور پر ختم اور خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹرز کے ایک وفد نے فنانس بل میں ایک ترمیم پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مودی سرکار فوری طور پر مقبوضہ وادی سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کا خاتمہ کرے،انٹرنیٹ، لینڈ لائن، موبائل سمیت دیگر سہولتیں بحال کی جائیں۔
اس سے قبل 7 امریکی قانون سازوں نے دستخط شدہ خط میں کہا ہے کہ کشمیر سے جبری گمشدگیوں، بڑے پیمانے پر نظربندیاں، ریپ اور جنسی استحصال اور سیاسی، معاشی، سماجی رہنماؤں کو اہداف بنا کر نظر بند کرنے کے الزامات کی موصول ہونے والی رپورٹس کرب ناک ہیں۔
ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں امریکی کانگریس اراکین اور سینیٹرز کا امریکی انتظامیہ کو لکھا گیا یہ تیسرا خط تھا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ خطوط میں سے ایک میں 4 اہم امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر قابل ذکر تنازعات کے حل میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں، ایسا کردار جس سے جنوبی ایشیا کی 2 جوہری طاقتوں کے درمیان ثالث کی ضرورت ہوگی۔
دوسری طرف امریکی کانگریس کی جنوبی ایشیا سے متعلق سب کمیٹی میں 22 اکتوبر کو مسئلہ کشمیر زیر بحث لایا جائے گا۔ کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا کے چیئرمین بریڈ شرمن نے مسئلہ کشمیرپر بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے،امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی 22 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بحث کرے گی۔
بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ بحث کے دوران کشمیرمیں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور روزمرہ کے معمولات کا جائزہ لیا جائے گا، کمیٹی میں مقبوضہ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خوراک اورادویات کا مسئلہ بھی زیربحث آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام اورسماجی رہنماؤں کو بھی مسئلے پر اپنے خیالات کے اظہارکے لیے مدعو کیا ہے، اگست میں میری اپنے حلقے کے کشمیرسے تعلق رکھنے والے امریکیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔
کانگریس مین بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ میں نے بہت تکلیف دہ کہانیاں اوراپنے پیاروں سے ملنے کیلئے بے تاب اور خوفزدہ لوگوں کی داستانیں سنیں، اس دن کے بعد سے میں کشمیری امریکیوں سے کئی ملاقاتیں کرچکا ہوں۔