لاہور: (رپورٹ / نیو یارک ٹائمز) سجا بیگم اس وقت رات کا کھانا تیار کر رہی تھی جب بیٹا باورچی خانے میں داخل ہوا۔ وہ انتہائی پریشان تھا اور چہرہ بجھا ہوا تھا۔ اس نے کہا ‘‘امی، مجھے سانپ نے کاٹ (ڈس) لیا ہے اور اب میں مرنے والا ہوں۔’’ سجا بیگم ایمبولینس نہ بلا سکی کیوں کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مو بائل فون کا نیٹ ورک بند کر رکھا ہے۔ سجا بیگم کے اوسان خطا ہونے لگے۔ کچھ ہی دیر میں عامر کا پیر سوجنے لگا اور وہ غنودگی کے گڑھے میں گرنے لگا۔ سجا بیگم نے ڈاکٹرز تک پہنچنے کی جدوجہد شروع کی۔ فون پر رابطہ ممکن نہ تھا۔ اور ڈاکٹرز بھی آسانی سے دستیاب نہ تھے۔
13 اگست کو عامر فاروق ڈار کو بارہ مولا کے نزدیک سانپ نے اُس وقت ڈس لیا جب وہ ایک باڑے میں گھر کی بھیڑوں کی نگرانی پر مامور تھا۔ سجا بیگم بیٹے کو لے کر گاؤں کے پبلک ہیلتھ سینٹر کی طرف دوڑی۔ اس مرکز میں سانپ کے کاٹے میں استعمال کی جانے والی دوائیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹرز مدد کرنے سے قاصر تھے۔ ان کے پاس کوئی تریاق نہ تھا۔ انہوں نے کسی نہ کسی طور ایمبولینس کا بندوبست کیا۔ سری نگر تک رسائی کے دوران عامر فاروق ڈار کی آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں۔ اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں ماں کو بتایا کہ اس کی دائیں ٹانگ محسوس نہیں ہو رہی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طور سری نگر کے ثورہ ہسپتال پہنچ گئے۔ یہاں بھی بری خبر ملی کہ سانپ کے کاٹے کا انجکشن نہیں۔ تب تک اس گھرانے کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ بارہ مولا ڈسٹرکٹ ہسپتال میں سانپ کے کاٹے کا تریاق تھا، تاہم یہ ایک سٹور روم میں تھا جو مقفل تھا۔ سٹور روم کا انچارج وہاں موجود نہیں تھا اور فون کے ذریعے اس سے رابطہ ممکن نہ تھا۔ یہ لوگ ایک آرمی کیمپ بھی پہنچے۔ آرمی کیمپ میں سانپ کے کاٹے کا انجکشن ہوا کرتا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ اگلے دن آئیں۔ اگلے دن صبح ساڑھے دس بجے، یعنی سانپ سے ڈسے جانے کے 16 گھنٹے بعد، عامر فاروق ڈار نے دم توڑ دیا۔ ہسپتال میں سانپ کے کاٹے کی دوا دو دن بعد پہنچی۔
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بعد مودی سرکار کی طرف سے عائد کی جانے والی سخت پابندیوں کے باعث متعدد افراد محض اس لیے جاں بحق ہوچکے ہیں کہ فون نیٹ ورک اور انٹر نیٹ بند ہونے کے باعث مریضوں یا زخمیوں کو ڈاکٹرز تک پہنچانا ممکن نہیں ہو سکا۔ فون سروس نہ ہونے کے باعث ڈاکٹرز آپس میں بات نہیں کر سکتے۔ کسی مریض کی حالت اور علاج کے بارے میں مشاورت نہیں کر سکتے۔ انتہائی خطرناک صورت حال میں کسی مریض کی مدد نہیں کرسکتے۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ایمبولینس بلانے اور اسپتال پہنچنے میں ناکامی پر اب تک کم و بیش بارہ مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں بیشتر دل کے مریض تھے۔ کشمیری ڈاکٹرز نے بھارتی سیکیورٹی فورسز پر طبی عملے کو براہ راست دھمکانے کا الزام بھی عائد کیا ہے صحت عامہ کے شعبے سے وابستہ بہت سے حکام نے اسپتالوں کے ریکارڈز کی بنیاد پر بتایا ہے کہ سیکڑوں مریضوں کو شدید ہنگامی حالت میں بھی ایمبولینس نہ ملنے کے باعث بروقت طبی امداد نہ دی جا سکی اور اس کے نتیجے میں متعدد مریضوں کی موت واقع ہوئی۔ بھارت کے بارہ سے زائد ڈاکٹرز نے حال ہی میں مرکزی حکومت کو لکھے جانے والے ایک خط میں کشمیر پر سے کرفیو اور مواصلاتی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر کے سری مہاراجا ہری سنگھ ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ رابطوں کے فقدان اور دواؤں کی شدید قلت کے باعث دو ماہ کے دوران اسپتال میں سرجریز (آپریشنز) کی تعداد میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ بہت سے نوجوان ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ فون سروس پر بندش کے باعث ان کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ جب انہیں سینئر ڈاکٹرز سے مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے تب اچھا خاصا وقت اسپتالوں کے چکر لگانے میں ضائع ہو جاتا ہے۔
بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 کالعدم ٹھہرا کر جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر دیا۔ اس کے باضابطہ اعلان سے کئی گھنٹے قبل بھارتی حکام نے سخت سیکیورٹی اقدامات کیے۔ فون اور انٹر نیٹ سروس مکمل بند کر دی گئی۔ ہزاروں کشمیریوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، جن میں واضح اکثریت سیاسی قائدین، سیاسی امور کے ماہرین اور عام سیاسی کارکنوں کی تھی۔ سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں وادی کشمیر کے کم و بیش 80 لاکھ افراد کے لیے نقل و حرکت کم و بیش صفر کے برابر ہوکر رہ گئی۔ بہت سے کشمیری ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پوری وادی کی ناکا بندی کے باعث ایسی درجنوں اموات واقع ہوئی ہوں گی جنہیں روکا جا سکتا تھا۔ اگست کے آخر میں کشمیری ڈاکٹر (یورولوجسٹ) عمر سلیم نے ڈاکٹر کا ایپرن پہن کر، سینے پر ایک پوسٹر چپکایا اور سری نگر میں میڈیا کے دفاتر والے علاقے میں سنسان سڑک پر موٹر سائیکل چلا کر کرفیو کی خلاف ورزی کی تھی۔ ڈاکٹر عمر سلیم نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم باضابطہ طور پر جیل میں نہیں مگر صورت حال کسی بھی طور جیل سے کم بھی نہیں۔ سری نگر کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے کارڈیولوجسٹ نے بتایا کہ حال ہی میں دل کے ایک مریض کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ان کے پاس لایا گیا۔ مریض کو بہتر اور مؤثر علاج کے لیے ایک ایسے پروسیجر سے گزارنا تھا جس کے لیے خصوصی تربیت یافتہ ٹیکنیشین کی خدمات درکار تھیں، مگر اسپتال میں مطلوبہ ٹیکنیشین نہیں تھا۔
ڈاکٹر جانتا تھا کہ مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر کو بھرپور تاریکی میں پانچ کلو میٹر تک ڈرائیو کر کے ایک علاقے میں داخل ہو کر ٹیکنیشین کو تلاش کرنا پڑا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس نے اور ٹیکنیشین نے مل کر مریض کی جان تو بچالی مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کو پتھروں کے دور میں جھونک دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ رضیہ خان اُمید سے تھی کہ اچانک پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ اس کا شوہر بلال منڈو غریب کسان ہے ۔ یہ قریب ترین اسپتال سے بہت دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ہیں۔ فون بند ہونے کے باعث ایمبولینس بھی نہیں منگوائی جاسکتی تھی۔ اس لاچار جوڑے کو اسپتال تک پہنچنے کے لیے سات میل پیدل چلنا پڑا۔ رضیہ کی خراب حالت کے باعث سفر دشوار تر ہوگیا۔ دونوں کسی نہ کسی طور اسپتال پہنچے ، تاہم وہاں سے انہیں سری نگر بھیجا گیا، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ بچے کو بچایا نہ جا سکا۔