دمشق: (ویب ڈیسک) روس نے شام میں ترکی سے منسلک سرحد میں نگرانی کے لیے اپنے فوجی بھیج دیئے ہیں جبکہ امریکا نے تیل تنصیبات کی حفاظت کیلئے اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔
روس نے شام میں ترکی سے منسلک سرحد میں نگرانی کے لیے 300 ملٹری پولیس پہنچا دیے جو شہریوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ کرد جنگجووں کو 30 کلومیٹر کا علاقہ خالی کرنے میں بھی تعاون کریں گے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ ہے کہ ترکی اور شام کی سرحد میں تنازع کی جگہ پر نگرانی کے لیے 300 اہلکار پہنچ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملیٹری پولیس کے اہلکاروں کو روس کی چیچنیا کے خطے سے شام بھیجا گیا ہے جو عوام کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے اور سرحد سے 30 کلومیٹر کے علاقے سے واپسی میں کرد فورسز سے کی مدد کریں گے۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے ملیٹری پولیس کے ساتھ ساتھ 20 سے زائد فوجی گاڑیاں بھی شام بھیجی جاچکی ہیں۔
ادھر امریکا نے شام میں تیل تنصیبات کی حفاظت کیلئے اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کردیا۔
عرب خبر رساں ادارے کے مطابق پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ امریکی منصوبے کی دوبارہ بحالی شام کی ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) کے تعاون سے کی جائے گی جو شمالی شام میں آئل تنصیبات کو داعش اور آئی ایس آئی ایل کے قبضے میں جانے سے روکے گی۔
پینٹاگون کا کہنا ہےکہ امریکا اپنے اتحادی ایس ڈی ایف کے تعاون کے ساتھ اپنی پوزیشن کی دوبارہ بحالی پر کاربند ہے جب کہ شمالی شام میں اضافی فوجی دستے آئل تنصیبات کے داعش یا دیگر شرپسند عناصر کے واپس قبضے میں جانے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سابق امریکی عہدیدار نے کہا کہ پالیسی میں ایک اور تبدیلی کے تحت امریکا کی جانب سے شمالی شام میں فوجی دستوں کی تعیناتی تاریخ اور جغرافیہ کو بری طرح نظرانداز کرنا ہے۔
اُدھر شام ميں امريکا کا اگلا ہدف خام تيل کی فيلڈز ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ شامی کرد ملٹری کے چيف مظلوم عابدی سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ وقت آ گيا ہے کہ مقامی کرد اب آئل فيلڈز کا رخ کريں۔ ٹرمپ کا اشارہ دير الزور کی طرف تھا۔
امريکی فوج کے کمانڈرز شام ميں اسلامک اسٹيٹ کو دوبارہ قوت پکڑنے سے روکنے کے ليے اس علاقے کی حفاظت کو کافی اہم قرار ديتے ہيں اور ان کے خيال ميں وہاں امريکی دستوں کی تعيناتی اس مقصد کے حصول ميں مددگار ثابت ہو گی۔
ٹرمپ کے تازہ ترين بيان پر ناقدين کہہ رہے ہیں کہ امریکی صدر خطے کے بارے ميں زيادہ آگاہی نہيں رکھتے۔ داعش کو شکست دينے کے ليے قائم کے گئے عسکری اتحاد کے سابق خصوصی مشير بريٹ مک گرک نے ٹوئيٹ ميں لکھا کہ امريکی صدر بظاہر کردوں کی وسيع تر ہجرت کا مطالبہ کر رہے ہيں اور وہ بھی ايک ريگستان ميں ايک چھوٹی سی تيل کی فيلڈ کی جانب ۔
امريکی سينيٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ ان کی بھی يہی رائے ہے کہ امريکا شام ميں موجود رہے۔ يہ امريکا کی قومی مفاد ميں ہو گا کہ اگر تيل کی فيلڈز کو داعش اور ايران سے بچا کر رکھا جا سکے۔