امریکا میں سیاہ فام شہری کا قتل ، بطورِ مسلمان ذمہ داری ہے مذمت کریں: ترک صدر

Last Updated On 01 June,2020 07:20 pm

نیو یارک: (دنیا نیوز) امریکا میں سیاہ فام شہری کے قتل پر پر تشدد احتجاج جاری ہے، اس دوران یہ احتجاج امریکا سے باہر نکل کر برطانیہ، جرمنی، فرانس سمیت دیگر ممالک پہنچ چکا ہے، قتل پر دیگر ممالک کا ردعمل بھی سامنے آ گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سیاہ فام شہری کے قتل پر رد عمل دیتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ امریکا میں سیاہ فام شہری کا قتل فاشسٹ اور نسل پر ستانہ اقدام ہے، بطورِ مسلمان ہماری ذمہ داری ہے وحشیانہ قتل کی مذمت کریں۔

ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا میں اقلیتوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ پرانی بیماری ہے۔ امریکا سیاہ فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرے۔

میئر لندن صادق خان کا کہنا تھا کہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کہ قتل پر پوری دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

دوسری طرف جارج فلائیڈ کے قتل پر زمبابوے نے امریکی سفیر کو طلب کر لیا ہے جبکہ امریکی سفارت کار نے افریقی ملک زمبابوے پر مظاہروں کو بڑھاوادینے کا الزام لگایا۔

افریقن یونین نے سیاہ فام شہری کی ہلاکت کو قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا سیاہ فام شہریوں کے خلاف نسلی تعصب کو ختم کرے۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اپنے ملک میں بھی دھونس زبر دستی رواں رکھتی ہے، عوام پر تشدد ختم کرکے لوگوں کو سانس لینے کا موقع دے۔

دریں اثناء امریکا میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت پر چھٹے روز بھی مظاہرے جاری ہیں، مطالبات منظور نہ ہونے پر ہزاروں سیاہ فام اور ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے چاروں پولیس اہلکاروں پر فرد جرم عائد کرنے کامطالبہ کر دیا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق واقعے میں ملوث صرف ایک پولیس اہلکار کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین نے متعدد شہروں میں 8منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ سیاہ فام پولیس اہلکاروں نے گھٹنے پربیٹھ کر مظاہرین کو خراج تحسین پیش کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کچھ ریاستوں میں مظاہرین کو ہٹانے کے لئے پولیس نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ "کین ٹکی "میں فورسز کی مظاہرین کی فائرنگ سے ایک شہری ہلاک ہو گیا۔

اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں بائیں بازو کی سخت گیر تنظیم انٹیفا کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ مظاہرین دوسری ریاستوں سے آکر فسادات میں ملوث ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل گارڈ نے منی سوٹا اور مینیاپولس میں پہنچ کر فوری کارروائی کی اور انٹیفا کی سرکردگی میں دیگر انارکی پھیلانے والوں کو خاموش کروا دیا، میئر کو پہلے ہی اس طرح کے اقدامات کرنے چاہیے تھے تاکہ اس مشکل میں نہیں پڑتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن شہروں اور ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی حکمرانی ہے، انہیں مینیاپولس میں بائیں بازو کے جرائم پیشہ وروں کو روکنے کے عمل کو دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل گارڈ نے بہترین کام کیا اور دیگر ریاستوں میں بھی اس کا استعمال ہونا چاہیے قبل اس کے کہ تاخیر ہوجائے۔

قبل ازیں واشنگٹن کے میئر نے رات کے 11 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا اور سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی تھی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے جمعے کو ایک اور احتجاج کے دوران وائٹ ہاؤس کے انڈر گراؤند بنکر میں منتقل کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے تقریباً ایک گھنٹہ بنکر میں گزارا جو دہشت گردی جیسے ہنگامی صورت حال میں استعمال کے لیے بنائی گئی ہے۔

سیکرٹ سروس ایجنٹس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار مظاہرین کو روکنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان کے نعرے گزشتہ کئی دنوں سے وائٹ ہاؤس میں سنے جارہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ روز ہونے والا احتجاج پر وائٹ ہاؤس کمپلیکس کو 11 ستمبر 2001 کے بعد انتہائی الرٹ کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مینیاپولس اور سینٹ پال دونوں جڑواں شہروں میں احتجاج میں شدت ہے اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مرکزی شاہراہ کی طرف مارچ کیا۔

خاتون شہری مونا عابدی کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاہ فام بیٹے، بھائی اور دوست ہیں اور ہم انہیں مرتے نہیں دیکھنا چاہتے، ہم اس طرح کے واقعات سے تھک چکے ہیں، یہ نسل اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، ہم ظلم سے تھک چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یقینی دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ زندہ رہیں جہاں پولیس اورنیشل گارڈ کے سیکڑوں اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔

 

Advertisement