باکو: (دنیا نیوز) آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متنازع خطے میں جھڑپوں کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری ہے جس میں فوجیوں سمیت 23 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ نے آذربائیجان اور آرمیینا سے جنگ بندی کی اپیل کر دی۔
نگورنو کاراباخ کا تنازع، آرمینیا اور آذر بائیجان میں جنگ کے بعد جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ آذر بائیجان نے جوابی کارروائی کے دوران آرمینیا کی فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ فضائی دفاعی نظام بھی تباہ کر دیا، درجنوں فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک بھی ہوئے۔
جنگ کا آغاز آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے 2 ہیلی کاپٹرز، ٹینک اور 3 ڈرونز مار گرانے کے بعد ہوا۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے کہا کہ وہ اس خطے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہیں تاہم کچھ علاقوں میں مارشل لا کا اعلان کیا گیا ہے۔ جوابی کارروائی کے نتیجے میں آذربائیجان کے متعدد رہائشی علاقوں کو جنھیں قبضے میں لیا گیا تھا، آزاد کرا لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ہماری کامیاب جوابی کارروائی اس ناانصافی اور 30 سالہ طویل قبضے کو ختم کر دے گی۔
پاکستان نے آذربائیجان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے، دفتر خارجہ سے جاری بیان میں برادر ملک آذر بائیجان کے موقف کی تائید کی گئی جبکہ آرمینیا کی جارحیت کو خطے کے امن کے لئے خطرہ قراد دے دیا گیا۔
اقوام متحدہ نے آذربائیجان اور آرمیینا سے جنگ بندی کی اپیل کردی سیکرٹری جنرل نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ آرمينيا کے مسيحی عليحدگی پسندوں نے نگورنو کاراباخ پر سن 1990 کی دہائی کے آغاز پر قبضہ کر ليا تھا۔ بين الاقوامی برادری نگورنو کاراباخ کو مسلم اکثریتی ملک آذربائيجان ہی کا حصہ قرار ديتی ہے۔ تب اس جنگ ميں لگ بھگ تيس ہزار جانيں ضائع ہو گئی تھيں۔ آذربائيجانی آرمينيائی تنازعہ سن 1990 کی دہائی ميں سابق سوويت يونين کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے بد ترين علاقائی تنازعات ميں سے ایک ہے۔
ماضی ميں فرانس، روس اور امريکا ثالثی کی کوششيں کرتے آئے ہيں مگر کسی ممکنہ امن ڈيل کی اميديں سن 2010 ميں مذاکرات کے خاتمے کے بعد دم توڑ گئی تھيں۔
ان علاقائی حريف ممالک کے مابين سن 1994 ميں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے امن عمل بھی عملی طور پر معطل ہی ہے۔ گو کہ وقفے وقفے سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہيں۔ اس سے قبل سن 2016 ميں دونوں ملکوں کی افواج کے مابين باقاعدہ مسلح جھڑپيں ہوئی تھيں، جن ميں مجموعی طور پر 110 افراد مارے گئے تھے۔ رواں سال جولائی ميں جھڑپوں کے نتيجے ميں سترہ فوجيوں کی ہلاکت کے بعد سے سرحدی کشيدگی کی تازہ لہر جاری ہے۔