کوپن ہیگن: (ویب ڈیسک) ڈنمارک میں دنیا کے پہلے توانائی کے مصنوعی جزیرہ کی تعمیر کی منظوری دیدی گئی ہے۔ اس منصوبے سے 30 لاکھ خاندانوں کو بجلی فراہم کی جائے گی، 34 ارب ڈالر کے اس منصوبے سے ہمسایہ ممالک کو بجلی فراہم کی جائے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق اپنی نوعیت کا دنیا کا یہ پہلا توانائی جزیرہ فٹ بال کے اٹھارہ میدانوں کے برابر ہو گا لیکن امید یہ کی جا رہی ہے اس کی وسعت میں تین گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس جزیرے پر 200 دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائین لگائے جائیں گے۔
یہ ڈنمارک کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور اس پر 34 ارب ڈالر خرچ ہونے کا تخمینہ ہے۔ یہ جزیرہ جو ساحل سے اسی کلو میٹر کے فاصلے پر سمندر میں تعمیر کیا جائے گا اس کا نصف حصہ حکومت کی ملکیت ہو گا جبکہ نصف حصے کی مالک پرائیوٹ کمپنیاں ہوں گی۔
بجلی پیدا کرنے والے اس انوکھے منصوبے سے صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات کو ہی پورا نہیں کیا جائے گا بلکہ ہمسایہ ملکوں کو بھی بجلی فروخت کی جائے گی۔
ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے پروفیسر جیکب اوسٹرگارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی ان ملکوں کی فہرست تیار نہیں کی گئی لیکن اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں برطانیہ بھی شامل ہو سکتا اور اس کے علاوہ ہالینڈ اور جرمنی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ڈنمارک کے کلائمیٹ ایکٹ کے تحت سنہ 1990 میں اس بات کا عزم کیا گیا تھا کہ کاربن کے اخراج کو سنہ 2030 تک 70 فیصد کم کر دیا جائے گا اور سنہ 2050 تک ملک مکمل طور پر کاربن کے اخراج سے پاک ہو جائے گا۔
گزشتہ دسمبر کو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ ڈنمارک شمالی بحیرہ اوقیانوس میں تیل اور گیس کی تلاش کا تمام کام بند کر رہا ہے۔
ملک کے توانائی کے وزیر ڈین ہرگنشین کا کہنا ہے کہ ان کا ملک دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے۔
پروفیسر اوسٹر گارڈ نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ یہ ڈنمارک کی ونڈ ٹربائین کی صنعت کا ایک بڑا قدم ہے۔ ہم خشکی پر ونڈ ٹربائین لگانے میں سب سے آگے تھے۔ اس کے بعد ہم نے ساحل سمندر اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائین لگائے اور اب ہم توانائی کا جزیرہ تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ لہذا اس سے ڈنمارک کی بجلی پیدا کرنے کی صنعت میں سب سے آگے رہے گا۔
ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم گرین گروپ ڈاسک انرجی نے کہا ہے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے جا رہے ہے لیکن اُس نے اِس بارے میں شک کا اظہار کیا کہ یہ منصوبہ 2033 تک میں شروع ہو سکے گا۔ ڈنمارک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
سابق وزیر توانائی رامس ہیلوگ پیٹرسن نے کہا کہ توانائی کا جزیدہ بنانے کا خیال انقلابی ہے اور اس پر اب وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسے اب حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ڈنمارک سے مشرق میں ایک قدر چھوٹے توانائی کی جزیرہ بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بلجیم اور ہالینڈ کو بجلی فراہم کرنے کے معاہدات کیے جا رہے ہیں۔
گذشتہ نومبر میں یورپی یونین نے اعلان کیا تھا کہ سمندری ہواؤں سے بجلی کی پیداوار 2050 تک 25 گنا تک بڑھا دی جائے گی اور 2030 تک اس میں پانچ گنا اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
اس وقت توانائی کے متادل ذرائع سے یورپی یونین کی ایک تہائی توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ ڈنمارک کی طرف سے توانائی کے جزیرے کی جگہ کو فی الوقت خفیہ رکھا گیا ہے لیکن یہ بات عام ہے کہ اس کو شمالی بحریہ اوقیانوس میں ڈنمارک کے ساحل سے 80 کلو میٹر کی دوری پر تعمیر کیا جائے گا۔