نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت سے ایک حیران کن خبر آئی ہے جہاں پر ایک نوجوان گھر بیٹھے فٹبال ’دیکھنے‘ کے پیسے وصول کرنے لگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق جب آپ 17 سال کے ہوں گے تو آپ اس وقت اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہے ہوں گے۔ یونیورسٹی یا پھر شاید نوکری کے بارے میں سوچتے ہوں گے۔ لیکن اس میں شاید فٹ بال کلب میں کام کرنا کہیں نہ آتا ہو۔
سکاٹ لینڈ کے کلب ڈنڈی یونائیٹڈ کے لیے کام کرنا ایشون رامن کے لیے ایک ایسا خواب تھا جو پورا ہو گیا۔ وہ وہاں سکاؤٹ اور تجزیہ کار کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
ریڈیو ون نیوز بیٹ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ میں ابھی بھی خود کو چٹکی کاٹتا ہوں اور مجھے ابھی بھی یقین نہیں آتا۔ ایشون 2019 سے اس کلب میں ہیں۔ اس دوران کلب کی کارکردگی بہتر بھی ہوئی اور اب وہ سکاٹش پریمئیر شپ میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اور یہ ان کے لیے کوئی صبح نو سے شام پانچ بجے والی نوکری نہیں ہے۔
بی بی سی کے مطابق اگرچہ ہم میں سے بہت سے لوگ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے گھروں سے کام کرنے کے عادی ہو رہے ہیں۔ لیکن ایشون پہلے سے ہی اس کے عادی ہیں اور ان کا سارا کام گھر سے ہی ہوتا ہے۔ وہ سکاٹ لینڈ سے 8225 کلومیٹر دور بھارتی شہر بینگلور میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ فٹ بال کے بارے میں کتابیں پڑھنے کے بعد ایشون اس کھیل کے ’اسیر‘ ہو گئے اور انھیں لگا کہ بلاگز کی دنیا میں جانا چاہیے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے 13ویں سالگرہ پر ہی بلاگ لکھنا شروع کر دیا تھا اور اب اگر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کئی تو بہت برے بلاگز تھے۔ لیکن جتنے زیادہ تجزیے وہ لکھتے گئے، اتنے ہی ٹوئٹر پر ان کے فالوورز بڑھتے گئے اور پھر 2019 میں انھیں ایک خصوصی پیغام ملا۔ ڈنڈی یونائیٹڈ کے چیف سکاؤٹ سیٹوی گریو کا مجھے براہ راست پیغام موصول ہوا اور انھوں پوچھا کہ کیا میں کلب میں کوئی کام کرنا پسند کروں گا۔
ایشون کے لیے یہ ایک موقع تھا وہ سب کرنے کا جو وہ پہلے ہی کر رہے تھے لیکن اب اس کا ’فٹ بال کلب پر حقیقی اثر ہونا تھا۔ کئی گھنٹے لیب ٹاپ پر گزار کر ڈیٹا دیکھنا اور ویڈیوز کے تجزیے کرنا شاید زیادہ تر لوگوں کا خواب نہ ہو لیکن ایشون کا خواب کچھ ایسا ہی تھا۔ دیکھیں مجھے ایک فٹ بال کلب کے لیے کام کرنے کے پیسے مل رہے ہیں اور اس کا اثر ہو رہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ان کا بہت زیادہ وقت صرف اس میں گزرتا ہے کہ کلب کے لیے نئے کھلاڑی ڈھونڈیں جن کے ساتھ وہ معاہدہ کر سکے۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں کس قسم کے کھلاڑی چاہیں، ڈیٹا بیس کے ذریعے دیکھیں کہ وہ کون سے کھلاڑی ہیں جو ہمارے پروفائل کے کھلاڑی کے مطابق اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ اور اگر ہم ان کے ساتھ معاہدے کے متعلق سوچیں تو میں گھنٹوں انھیں دیکھتا ہوں اور اگر وہ اس کے قابل ہوں تو ان کو اطلاع دیتا ہوں۔