تہران: (دنیا نیوز) ایران کے دارالحکومت میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دو روزہ مذاکرات کے بعد فریقین نے اختلافات مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے سمیت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کر لیا ہے۔ روس کے دورے پر موجود طالبان کے وفد نے افغان سرزمین روس کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرادی۔ غزنی صوبے میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت میدان جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی متحرک ہو گئے، تہران میں دو روزہ مذاکرات کے بعد چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوگیا، فریقین نے جنگ کے بجائے مذاکرات سے مسائل حل کرنے اور خوشگوار ماحول میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا جبکہ ایرانی وزیر خارجہ نے مذاکرات کے اگلے دور کی میزبانی کی بھی پیشکش کی۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اور وفد نے ماسکو کا دورہ کیا، روسی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے نمائندے کا کہنا تھا کہ وہ طاقت کے زور پر افغانستان میں اقتدار حاصل کرنا نہیں چاہتے نہ ہی وہ افغان سرزمین کو روس پر حملے کے لئے استعمال ہونے دیں گے۔
دوسری طرف افغان طالبان نے افغان تاجک بارڈر پر حملہ نہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
ادھر تاجکستان نے افغان بارڈر پر سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے روس سے مدد مانگ لی، دوشنبے کا موقف ہے کہ افغانستان سے درپیش سیکورٹی چیلنجز سے تاجکستان اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔
برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی بیشتر افواج نے افغانستا ن سے انخلا مکمل کرلیا ہے، باقی ماندہ افواج بھی جلد گھر آجائے گی ۔
افغانستان صوبے غزنی میں گھمسان کی جنگ جاری ہے، صوبائی دارالحکومت کی جانب طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے افغان فورسز نے حملے تیز کردیے، لوگر صوبے میں افغان فضائیہ کے حملے میں چار طالبان مارے گئے۔ صوبہ بلخ کی حفاظت کے لئے ڈیڑھ ہزار عوامی رضاکار تعینات کردئے گئے ہیں، اور مزید رضاکار بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔