جینیوا : (ویب ڈیسک ) جینیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں گزشتہ روز پیش کی گئی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔
طالبان نے اگست 2021ء میں اقتدار سنبھالا جس کے بعد انہوں نے خواتین کی ملازمت پرپابندیوں کے ساتھ ان کی آزادیوں اور حقوق کو محدود کردیا اور ان کی سیکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی صلاحیت کو بہت حد تک محدود کردیا گیا۔
افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک "جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہو سکتا ہے، جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔"
بینیٹ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو جولائی تا دسمبر 2022ء پر مشتمل ایک رپورٹ میں بتایا کہ "طالبان کی جان بوجھ کر اور حسابی پالیسی خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق سے انکار اور انہیں عوامی زندگی سے مٹانا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کا خواتین کے خلاف یہ جنسی بنیاد پر ظلم و ستم کے بین الاقوامی جرم کے مترادف ہو سکتا ہے جس کے لیے طالبان حکام کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں :افغانستان : یونیورسٹیز میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی کونسل کو طالبان کو ایک مضبوط پیغام دینا چاہیے کہ "خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک کسی بھی بنیاد پر ناقابل قبول اور بلا جواز ہے ، خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کا مجموعی طور پر پوری آبادی پر تباہ کن اور دیرپا اثر ڈالتا ہے، جو کہ صنفی امتیاز کے برابر ہے۔"
اس سے قبل دسمبر میں طالبان نے انسانی امداد کے اداروں سے زیادہ تر خواتین پر پابندی عائد کر دی تھی، جس سے کئی امدادی ایجنسیوں کو سخت سرد موسم کے دوران پیدا ہونے والے انسانی بحران کے درمیان جزوی طور پر کام معطل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔