تہران : (دنیانیوز) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ سمیت ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد حادثے میں جاں بحق ہوگئے ، صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ آج صبح مل جانے کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد ایرانی صدر اور ہیلی کاپٹر میں سوار افراد کے بچ جانے کی امیدیں دم توڑ گئیں تھیں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق حادثے کی وجہ بارش اور شدید دھند کو قرار دیا گیا ہے ، ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ پہاڑی سے ملا، پرواز کے آدھے گھنٹے بعد صدارتی ہیلی کاپٹر کا دیگر دو ہیلی کاپٹرز سے رابطہ منقطع ہوا۔
قبل ازیں ایرانی عہدیدار نے کہا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد صدر رئیسی کے بچنے اور زندہ ہونے کی توقعات کم ہیں، برطانوی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی عہدیدار کاکہناتھا کہ حادثے کے مقام پر زندگی کے کوئی آثار نہیں کیونکہ اس جگہ پر موجود ہیلی کاپٹر مکمل طور پر جل گیا ہے۔
اس سے قبل ایرانی ہلال احمر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر کریش ہونے کے بعد زندہ بچے مسافروں کا کوئی نشان نہیں۔
بعدازاں ایرانی حکام نے بھی ابراہیم رئیسی اور ساتھیوں کی موت کی تصدیق کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :ایرانی صدر کے لاپتہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا: ایرانی میڈیا
19 مئی کی شام ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ملک کے علاقے آذربائیجان کے پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیا تھا۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی آذربائیجان سے منسلک ایرانی سرحد پر ڈیم کا افتتاح کرنے بعد واپس تبریز آ رہے تھے کہ موسم کی خرابی کے باعث ان کے ہیلی کاپٹر کو ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی، ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر کے علاوہ وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر ملک رحمتی سمیت دیگر اہم حکام سوار تھے۔
ہنگامی لینڈنگ کے بعد ہیلی کاپٹر کی تلاش کی گئی ، موسم کی خرابی کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، آپریشن میں 6 صوبوں تہران، البورض، اردبیل، مشرقی آذربائیجان اور مغربی آذربائیجان سے امدادی ٹیمیں شامل ہیں ، ایرانی فوجی دستے اور ترکیہ کے ریسکیو اہلکار بھی حصہ لے رہے ہیں۔
ترکیہ کی جانب سے ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کیلئے خصوصی طور پر پہاڑوں میں ریسکیو آپریشن کرنے والی ٹیم بھیجی گئی، ترکیہ کی ٹیم 32 ریسکیو ماہرین پر مشتمل ہے، ترکیہ کی ریسکیو ٹیم نائٹ ویژن آلات اور سہولتوں سے لیس ہے، 47 روسی ماہرین ہیلی کاپٹر کی کھوج پر مامور تھے۔
عرب میڈیا کے مطابق ترکیہ کے ڈرون نے ہیلی کاپٹر کا مقام ڈھونڈا جبکہ شدید دھند اور انتہائی خراب موسمی صورتحال کے باعث ریسکیو اہلکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی زندگی پر ایک نظر
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی جنھیں ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشینوں میں بھی شمار کیا جاتا رہا ہے ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک عالم تھے اور ابراہیم صرف پانچ برس کے تھے جب وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا، ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:ایرانی صدرابراہیم ریئسی کا ہیلی کاپٹر حادثے میں انتقال، عالمی برادری کا اظہارتعزیت
انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔
ابراہیم رئیسی صرف 20 برس کی عمر میں تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر کے عہدے پر فائز ہوئے، 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ابراہیم رئیسی کے بعد ایرانی صدارتی عہدہ کون سنبھالے گا؟
2017 میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا ، 2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔
ایرانی صدر، جن کا کیریئر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں شروع ہوا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب تھے۔ انہوں نے 2021 میں میں اقتدار سنبھالا، جس کے بعد انہیں کئی سال تک مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔
ستمبر 2022 میں مہیسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔
مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔
غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔
اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں 63سالہ ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
حادثے میں جاں بحق ایرانی وزیرخارجہ کون تھے ؟
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو نظام کے سب سے قابل اعتماد لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے امریکہ اور عراق کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔
ان مذاکرات کے بعد ہی ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری امور پر بات چیت ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ایرانی وزیرِ خارجہ کی وفات کے بعد علی باقری کنی عبوری وزیرِ خارجہ مقرر
وہ پہلے ایرانی اہلکار تھے جو حسن روحانی کے دور میں تہران میں برطانوی سفارتخانے کے افتتاح کے بعد لندن گئے تھے اور برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے ملاقات کی تھی۔
وہ وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں اور خطے میں ایران کے ’مزاحمتی فرنٹ‘ اور اثر و رسوخ پر بات کرتے تھے۔
انھوں نے تہران یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور سے متعلق ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ بحرین میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں مگر حسن روحانی کی حکومت نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
حالیہ دور میں غزہ جنگ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے مختلف ممالک کے دورے کیے تھے۔