لاہور: (ویب ڈیسک) اقوام متحدہ کا فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ووٹ فائدہ مند ثابت ہوگا؟
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی، قرارداد میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق قرارداد کا متن عالمی عدالت انصاف کی ایک رائے پر مبنی ہے جس میں 1967 سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
قرارداد کے حق میں 124اور مخالفت میں 14 ووٹ آئے جبکہ 43 رکن ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، مخالفت کرنے والوں کی فہرست میں اسرائیل اور اس کا سب سے بڑا اتحادی امریکا بھی شامل ہے۔
فرانس، سپین، فن لینڈ اور پرتگال اس کے حق میں ووٹ دینے والے چند اہم یورپی ممالک تھے جبکہ دیگر نمایاں حمایتیوں میں جاپان، چین، روس اور برازیل شامل تھے، مجموعی طور پر تقریباً تمام افریقہ، یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ نے فلسطین کے حق میں ووٹ دیا۔
18ستمبر کو اقوام متحدہ میں بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی یہ قرارداد قانونی طور پر پابند نہیں ہے لیکن اس میں اسرائیل کی سخت سرزنش بھی شامل ہے۔
بھارت کا ووٹنگ میں حصہ نہ لینا اسرائیل کی خاموش حمایت کا پیش خیمہ
بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، بھارت کے ووٹنگ میں حصہ لینے سے اجتناب کے فیصلے کا مطلب اسرائیل کی خاموش حمایت ہی ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کو قریبی دوست مانتے ہیں۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں ممالک کی اقوام کے درمیان تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی آہستہ آہستہ فلسطین کے لیے اپنی روایتی ثابت قدم حمایت سے ہٹ گیا ہے۔
قرارداد میں مطالبہ
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیرقانونی موجودگی کو بلا تاخیر ختم کرے اور ایسا اس قرارداد کو پیش کیے جانے کے 12ماہ کے اندر کیا جائے۔
یو این میں منظور کی گئی قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور اپنے فوجی دستوں کو واپس بلائے، تمام نئی آباد کاری کی سرگرمیاں فوری طور پر بند کرے، تمام نئے آباد کاروں کو مقبوضہ زمین سے نکالے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل قبضے کے دوران بے گھر ہونے والے تمام فلسطینیوں کو اپنے آبائی مقامات پر واپس جانے کی اجازت دے اور قبضے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کرے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر پابند قرارداد کو نافذ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے مستقبل قریب میں مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی تبدیل کرنے کا امکان نہیں ہے۔
گلاسگو یونیورسٹی میں سکول آف لاء کے سینئر لیکچرر جیمز ڈیوانی کا کہنا ہے کہ جنرل اسمبلی کی قرارداد میں اسرائیل کے لیے مقبوضہ فلسطینی سرزمین خالی کرنے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے لیکن یہ حقیقت قرارداد کی ناقابل نفاذ نوعیت کو تبدیل نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ 12 ماہ کی ڈیڈ لائن سیاسی اہمیت رکھتی ہے، قرارداد اقوام متحدہ میں اٹھائے جانے والے مستقبل کے سیاسی اور طریقہ کار کے اقدامات میں کردار ادا کر سکتی ہے لیکن میری رائے میں قرارداد کے قانونی اثر یا مشاورتی رائے کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔