مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں آزادی اظہار جرم، اختلاف رائے گناہ

Published On 10 September,2025 10:21 am

نئی دہلی: (دنیا نیوز) مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں آزادی اظہار جرم اور اختلاف رائے گناہ بن گیا۔

بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو اجاگر کرتے ہوئے بین الاقوامی جریدے الجزیرہ نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں نریندر مودی کے اقتدار میں سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مودی سرکار نے اکتوبر 2024 میں سہیوگ پلیٹ فارم کے ذریعے ضلعی افسران اور پولیس کو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مواد سنسر کرنے کے خصوصی اختیارات دے دیئے، اس قانون کے تحت اب تک 3465 لنکس پر تقریباً 300 ٹیک ڈاؤن درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ سہیوگ پلیٹ فارم کے تحت سیکشن 79(3)(ب) استعمال کر کے بھارتی حکومت سپریم کورٹ کے حفاظتی اقدامات کو بائی پاس کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں نامعلوم افسران یکطرفہ طور پر کسی بھی معلومات کو "غیر قانونی" قرار دے کر ملک بھر میں بلاک کر سکتے ہیں۔

ایکس (سابق ٹوئٹر) کے مطابق ماضی میں سیکشن 69A صرف استثنائی حالات میں استعمال ہوتا تھا مگر اب نئے قانون کے ذریعے افسران کو مکمل بلاکنگ کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014 میں مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے ٹیک ڈاؤن آرڈرز میں مسلسل اضافہ ہوا اور صرف 2022 تک یہ شرح 14 گنا بڑھ گئی۔

اس دوران آزاد میڈیا ادارے مکتوب، کشمیری صحافی انورا دھا بھاسن (کشمیر ٹائمز) حتیٰ کہ رائٹرز جیسے بین الاقوامی اداروں کو بھی بلاک کرنے کے احکامات دیئے گئے۔

مزید برآں پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستانی صحافیوں، نیوز آؤٹ لیٹس اور فنکاروں کو بڑے پیمانے پر بلاک کیا گیا۔

حیران کن طور پر کئی بھارتی صحافی اور بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس کو بھی اسی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ عوامی تحفظ کے نام پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی ایک طنزیہ میم کو بھی بلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح ڈی ڈبلیو نیوز نے انکشاف کیا کہ "آپریشن سندور" کی ناکامی شائع کرنے پر نیوز ویب سائٹ The Wire کو بھی بلاک کر دیا گیا۔

عالمی سطح پر بھارت کی آزادیٔ صحافت کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر تک گر چکی ہے، مبصرین کے مطابق مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں اور لکھاریوں کو خاموش کرانے کے لیے منظم طریقے سے اظہارِ رائے پر قدغن لگا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مکتوب، انورا دھا بھاسن اور کتابوں پر پابندی جیسے ہائی پروفائل کیسز مودی حکومت کے آمرانہ رویے کی واضح مثال ہیں۔