غزہ: (ویب ڈیسک) فلسطین کی حریت پسند جماعت حماس کے اعلیٰ عہدیدار اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ غزہ میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ کل صبح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ دستخط شدہ معاہدے کے مطابق پیر کی صبح قیدیوں کا تبادلہ شروع کر دیا جائے گا جس پر معاہدے میں اتفاق ہوا تھا، منصوبے کے پہلے مرحلے کے مطابق ان 20 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جن کے میں بارے میں اسرائیل کو یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ان کے بدلے میں 2000 کے قریب فلسطینی قیدی چھوڑے جائیں گے۔
مصر کے صدارتی دفتر کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی پیر کی سہ پہر کو شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کی سربراہی کریں گے جس میں 20 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ، مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانا اور خطے میں سلامی و استحکام کے نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گے جبکہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کے علاوہ اٹلی و سپین کے وزرائے اعظم اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں بھی شریک ہوں گے۔
اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتنن یاہو اجلاس میں شریک ہوں گے یا نہیں تاہم حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ حماس اس میں شریک نہیں ہو گی کیونکہ اس نے قطری و مصری ثالثوں کے کے ذریعے اس پورے عمل میں حصہ لیا ہے۔
غزہ معاہدے کے حوالے سے واضح پیشرفت ہو جانے کے باوجود اب بھی ثالثوں کے سامنے طویل المدتی سیاسی حل نکالنے کے لیے مشکل صورت حال موجود ہے جس کے لیے ضروری ہو گا کہ مسلح حماس غزہ کی گورننس سے الگ ہو جائے۔
حسام بدران کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کافی مشکلات اور پیچیدگیاں موجود ہیں جبکہ ایک اور رہنما نے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل غزہ سے مرحلہ وار انخلا کرے گا اور مصر،قطر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کی فورسز پر مشتمل کثیر ملکی فورس اس کی جگہ لے گی، جو اسرائیل میں امریکہ کے کمانڈ سینٹر کے تعاون سے کام کرے گی۔